جمعہ نامہ : احتجاج میں غم و غصہ اور مظاہرے کا سکون و اطمینان

 

ڈاکٹر سلیم خان

عصر حاضر میں ہر کسی کو بس کے سفر کا سابقہ پڑہی جاتاہے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوچار مسافر منتظر ہیں اور بس آکر کھڑی ہوگئی۔ وہ لوگ بڑے آرام سے بس میں سوار ہوتے ہیں اور کھڑکی کے ساتھ والی کسی سیٹ پربراجمان ہو جاتے ہیں ۔ سیٹ کا انتخاب کرتے وقت کئی چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے مثلاً وہ پچھلے ٹائر کے اوپر یاآخر میں نہ ہو جہاں زیادہ جھٹکے لگتے ہیں۔ وہ سورج کی سمت بھی نہ ہو تاکہ دھوپ کی تمازت سے بچا جاسکے وغیرہ ۔ ان تمام نعمتوں کی حصولیابی کے بعد بھی مسافر کےاندرجذبۂ شکر نہیں پیدا ہوتا بلکہ ایک نئی پریشانی کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ بس چلنے کا انتظار اس کی طبیعت پر گراں گزرنے لگتا ہے حالانکہ وہ اس کے اختیار کی شئے نہیں ہے۔ لاکھ جن بھن کر بھی وہ بس کو وقت سے پہلے چلا نہیں سکتا۔

اس کے برعکس ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب کوئی بس کے پاس پہنچے تو بس چھوٹنے والی ہو۔ وہ بھاگتے دوڑتے بس میں سوار ہو تو کوئی خالی سیٹ نظر نہ آئے ۔ آخری سیٹ پر پانچ سواریوں کو بیٹھا دیکھ کر بھی وہ اس جانب بڑھے ۔ ان میں سے کسی رحم آجائے اور وہ سرک کر تھوڑی سی جگہ بنادے۔ دوسرے بھی سمٹ جائیں ا وروہ ان کے درمیان مشکل سے د بک جائے ۔ اس پریشانی کے عالم میں بھی وہ ان مسافروں کا اور اپنے پاک پروردگار کا شکر اداکرتاہے ۔ انسان مشکل پسند نہیں بلکہ سہل پسند ہے ۔وہ آسانیوں کے لیے کوشاں ر ہتا ہے۔ پھر بھی مذکورہ بالا کشادگی میں الجھن اور پریشانی میں سکون کی وجہ متضاد توقعات ہیں ۔اول الذکر فردخالی بس میں بہترین سیٹ کو اپنا حق سمجھ لیتا ہے۔ اس کی حصولیابی کے لیے وہ اپنے قبل ازوقت بس اڈہ پہنچ جانے کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ اس نعمت کو وہ چونکہ اللہ کی عطا نہیں سمجھتا اس لیےجذبۂ شکرو احسان سےخودکو محروم کرلیتا ہے۔ اس کی خود غرضانہ طبیعت پردیگر مسافروں کا انتظار گراں بار ہوتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ بس وقت سے پہلے چل پڑے اور جلد ازجلد اسے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچا دے چاہے اس کے لیے دیگر مسافروں کی حق تلفی ہی کیوں نہ ہو؟ یہ جلد بازی اور نفسانیت اس کو تمام سہولیات کے باوجود بے چین رکھتی ہے۔

تاخیر سے بس اڈے پہنچنے والا مسافر اول تو بس کے ملنے کی بابت مشکوک ہوتا ہے۔ اس لیے جب اس کی نظر بس پر پڑتی ہے تو اسے پہلی غیر متوقع خوشی حاصل ہوجاتی ہے۔ سواری کو یقین ہوتا ہے کہ اگر بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مانند بس مل بھی جائے تو بیٹھنے کی جگہ کا ملنا ناممکن ہے۔ ایسے میں کھڑے رہ سفر کرنے کےلیے ذہنی طور پر تیار سواری کے لیے تکلیف دہ سیٹ بھی باعثِ شکر و احسان ہوتی ہے اور وہ پھولا نہیں سماتا ۔ زندگی کی آزمائش میں بھی توقعات کافرق ہی انسان کو سکون اور بے چینی سے ہمکنار کرتا ہے۔ یہی کھڑکی کے پاس پیر پھیلا کر بیٹھے ہوئے مسافر اور پانچ لوگوں کے درمیان بیٹھی ہوئی سواری کی قلبی کیفیت کا فرق ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ یکساں منظر مختلف لوگوں پر الگ الگ اثرات مرتب کرتا ہے۔ کسی کا یقین ڈگمگا تا ہے تو کسی کا ایمان بڑھ جاتا ہے ۔ غزوۂ احزاب میں جب ’’ ایمان لانے والے آزمائے گئے اور بُری طرح ہلا مارے گئے‘‘تو منافقین نے کہا ’’ اللہ اور اُس کے رسولؐ کا وعدہ فریب تھا ۔یثرب والو، اب ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں ہے، پلٹ چلو‘‘۔ اسی منظر نے سچے اہل ایمان پر بالکل متضاد کیفیت مرتب کی۔ ارشادِ ربانی ہے ’’اور سچے مومنوں نے جب حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ :یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اُس کے رسولؐ کی بات بالکل سچّی تھی۔ اِس واقعہ نے اُن کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا‘‘۔ یہاں چونکہ دونوں گروہوں کی توقعات مختلف تھیں اس لیے منظر نہیں بدلا مگر نظر کے بدل جانے سے نظارہ بدل گیا ۔ایک کے سامنے یہ آیت تھی کہ ’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ایمان لائے اور تمہیں آزمایا نہیں جائے گا‘‘ اور دوسرے نے اس حقیقت کو بھلا دیا تھا اس لیے دونوں کی توقعات اور کیفیت متضاد ہوگئی تھی۔

Comments are closed.