چین کا ایغور مسلمانوں سے ظالمانہ سلوک،بائیکاٹ اور پابندی ضروری

فرینک اسلام
چین کے شنچیانگ صوبہ میں دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کو حراستی کیمپ میں رکھے جانے کے بار ے میں سال 2019 میں بہت کچھ لکھا گیا اور اس کو لے کر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔ اس کے جوا ب میں چین مسلسل ایغورمسلمانوں کے ساتھ اس بہیمانہ برتاؤ کو یہ کہہ کر صحیح ٹھہراتا رہا کہ اسلامی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے ایسا کیا جانا ضروری ہے۔ اس نے یہ بھی دعویٰ کیاکہ یہ حراستی کیمپ پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز ہیں۔
لیکن ثبوت اس دعویٰ کی نفی کرتے ہیں۔مورخہ 16نومبر کو نیو یارک ٹائمز نے ‘شنچیانگ پیپرس’ کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا جو کہ ان حراستی کیمپوں سے متعلق 400 صفحات کے ایک دستاویز پر مشتمل تھا۔ اس مضمون سے چین کے حراستی کیمپوں کے بارے میں بہت خطرناک حقائق سامنے آئے۔
مورخہ 26نومبر کو امریکہ کے وزیر وزیر خارجہ مائک پومپیو نے کہا کہ شنچیانگ پیپرس "شنچیانگ میں ایغور اور دیگر اقلیتی گروپوں کے ممبروں پر وحشیانہ نظربندی اور منظم جبر” کو ظاہر کرتے ہیں۔ پومپیو نے یہ بھی کہا کہ "ہمارا چینی حکومت سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ ان سارے محروسین کو فی الفور رہا کریاور شنچیانگ میں اپنے شہریوں کو دہشت زدہ کرنے والی اس طرح کی سخت پالیسیوں کو کالعدم قرار دے۔ ”
دوسرے لوگوں نے اور بڑے اقدامات کا اعلان کیا۔ایمیج نامی ایک تنظیم جو کہ امریکی مسلمانوں کو ان کے ایشوز کے لئے بیدار کرنے کا کام کرتی ہے نے سال 2022 کے موسم سرما میں ہونے والے بیجنگ اولپمک کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ 3دسمبر کو امریکی ایوان نے ایغور ہیومن رائٹس پالیسی ایکٹ منظور کیا۔ اس کو ابھی سینیٹ کی منظوری ملنی باقی ہے۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ اگر چین کے ایغور مسلمانوں کے ساتھ موجودہ سخت اور تحقیر پسندانہ رویہ جاری رہا تو اس پر سخت پابندیاں لگانی ہوں گی۔
ایک ہند نڑاد امریکی کے طور پر میں بیجنگ اولمپک کے بائیکاٹ اور مذکورہ UHRPA قانون کے تحت پابندیاں لگانے کی حمایت کرتا ہوں۔امریکہ کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ ہمیشہ بین الاقوامی طور پر حقوق انسانی کی پامالی جیسے مسئلے پر آواز اٹھاتا رہا ہے اوراقدام بھی کرتا رہا ہے۔ حراستی کیمپوں میں لوگوں کو رکھنے والوں کے یہاں ہونیوالے اولمپک کا بائیکاٹ کرناضروری ہے۔
یہ قانون امریکی قیادت کی حقوق انسانی کے تحفظ اور اس کے لئے کوششوں کی ایک مثال ہے۔اس سے پہلے بھی امریکہ نے اولمپک کابائیکاٹ کیا ہے۔ مارچ 1980 میں اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے اعلان کیا تھا کہ دسمبر 1979 میں سوویت یونین کے ذریعہ افغانستان پر حملہ کرنے کی وجہ سے امریکہ اس سال کے موسم گرما کے اولمپک میں شامل نہیں ہوگا۔ کل 64 ممالک نے اس بائیکاٹ میں امریکہ کا ساتھ دیا۔
اولمپک بائیکاٹ اور حقوق انسانی کی پامالی کے خلاف قائدانہ کردار ادا کرنیکے علی الرغم، امریکہ کی تاریخ ان کیمپوں کے حوالے سے کوئی مثبت مثال فراہم نہیں کرتی۔دوسری جنگ عظیم کے موقع پر امریکی حکومت نیتقریبا ایک لاکھ 20ہزار جاپانی امریکیوں کوزبردستی اپنے مقام سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا اور ان کو کیمپوں میں رکھا گیا۔اور اس کی وجہ محض اتنی تھی کہ ان کا آبائی وطن جاپان تھا۔
یہ کام ملک کے لئے یقینا کوئی قابل فخر کارنامہ نہیں تھا۔ سال 1988 میں جب صدر رونالڈ ریگن نے سول لیبرٹی ایکٹ پر دستخط کئے توامریکہ نے اس کے لئے باقاعدہ طور پرمعافی بھی مانگی۔وزیر خارجہ مائک پمپیو نے چین کے خلاف بیان دیا۔ صدر ٹرمپ کو چاہیے کہ اس بل کو کانگریس کی طرف سے موصول ہوتے ہی اس کے خلاف مزید جارحانہ اندازاپناتے ہوئے اس پر دستخط کریں۔ جیسا کہ پرانی کہاوت ہے کہ عمل کی اہمیت بات سے زیادہ ہوتی ہے لہذا اس معاملے میں چین کے خلاف پابندیاں لگانیسے ایک سخت پیغام جائے گا۔ اور دوسرے ممالک کو بھی پابندی لگانے والوں کی فہرست میں شامل کرنے سے اس پیغام کی اہمیت دوچند ہوجائے گی۔
ایک ملک جسے میں اس معاملے میں آواز بلند کرنے اورپابندیا ں لگانے میں امریکہ کے ساتھ دیکھنا چاہتا ہوں وہ ہندوستان ہے۔ لیکن ہندوستان اس معاملے میں واضح طور پر خاموش ہے۔ ہندوستان کو اس معاملے میں آگے آنا چاہئے کیوں کہ اس سے ہندوستان کے سارے لوگوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے عزم کا اظہار ہوگا اور اس سے اس کی سیکولرجمہوریت کی شبیہ بحال ہوگی۔ خاص طور پر ہندوستان میں حالیہ دنوں میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے اس حوالے سے جو ملک کی شبیہ بنی ہے اس سے اس کا سد باب بھی ہوگا۔
بنیادی طور پر مسلم اکثریتی ریاست کشمیر میں بند کے دوران ہندوستان نے آزاد صحافت کے حوالے سے اچھا کردار ادا نہیں کیا۔ حقوق انسانی کے اداروں اور افراد کی طرف سے ہندوستان کی ریاست آسام کے 20 لاکھ لوگوں ، جس میں اکثریت مسلمان ہیں اور ان کا نام این آرسی میں نہیں آسکا ہے کو حراستی کیمپوں میں ڈالنے اورشہریت ترمیم قانون کے ذریعہ مسلمانوں کے علاوہ دیگر کو آسام اور تری پورہ میں شہریت دینے کے منصوبہ پر کافی تنقید کی گئی ہے۔
یہ ہندوستان کے لئے ایک موقع ہے کہ وہ اپنی اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرسکے جو کہ مذکورہ بالا کاموں سے خراب ہوگیا ہے اور وہ اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ ان علاقوں میں قرارداد منصفانہ اور مساوی ہو۔ یہ اس بات کا بھی موقع ہے کہ صحیح کام کیا جائے۔
سارے ثبوت اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں چین ایغور مسلمانوں کے ساتھ صحیح برتاؤ نہیں کررہاہے۔ وہ برین واشنگ ، دھمکی اور نسل کشی کے ذریعہ اپنے غلط مقاصد کو بروئے کار لانے کے درپہ ہے۔ یہ ایک کمیونسٹ اور آمرانہ نظام حکومت والے ملک میں شاید قابل تسلیم ہو لیکن یہ ان لوگوں کے لئے قابل تسلیم نہیں ہوسکتا جوزندگی، آزادی اور مساوات کی اہمیت کو سمجھتے ہوں۔ لہذا ایسے لوگوں کو متحد ہوکر بائیکاٹ اور پابندی لگانے کی پرزور وکالت کرنے کی ضرورت ہے۔
٭(فرینک ایف اسلام امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک کامیاب ہند نڑاد تاجر، مخیر اور مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل کے ذریعہ رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
[email protected])
Comments are closed.