بے شک یہ نظام عالم کی تبدیلی کا وقت ہے

ذوالقرنین احمد
ملک میں گزشتہ پانچ سالوں سے جو حالات بنےہوئے ہیں، وہ بڑی تبدیلی کی صورتحال اختیار کرنے کی طرف اشارہ کر رہےہیں۔ دوسری مرتبہ بی جے پی کے مرکزمیں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد اب حالات دگر گوں ہوتے جارہے ہیں اس حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے ابھی کچھ ہی مہینے گزرے ہیں کہ ملک کے سبھی طبقات بے چینی ، اپنی اور اپنے بچوں کے مستقبل کو لے کر فکر مند ہوچکے ہیں کہ اس ملک میں ان کا مستقبل کیسا ہوگا۔ ہر کسی کو اپنے تحفظ کی فکر ستا رہی ہے۔ مودی حکومت غیر آئینی اور غیر انسانی حقوق کے پامالیوں جیسے قانون بنارہی ہے۔ اس سے کوئی بھی طبقہ متاثر ہونے سے نہیں بچا ہے سوائے چند فرقہ پرست عناصر کے جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ بی جے پی کے قلعوں میں داخل ہوکر محفوظ ہوچکے ہیں، لیکن انہیں یہ بات معلوم ہونے چاہیے جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے اور حد سے زیادہ ظلم و تشدد عوام پر کیا جاتا ہے تو ان کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔ جب آندھی آتی ہے تو کسی کے صاحب اقتدار کو دیکھ کر راستہ تبدیل نہیں کر لیتی ہے۔ جب کہیں آگ لگتی ہےتو اس میں صرف ایک طبقے کے لوگ متاثر نہیں ہوتے ہیں بلکہ سبھی اسکا شکار ہوتے ہیں۔
ہم جنس پرستی اور غیر ازدواجی جنسی تعلقات کے قانون بنائے گئے اب انہیں کے گھر اس سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔ آسام میں این آر سی کے زریعے ملک بدر کرنے کی کوشش کی گئی اس بھی میں انکی اکثریت متاثر ہوئی ہے۔ اور وہاں کی عوام اب اس قدر ان فرقہ پرست اقتدار جماعت پر غصہ ہے کہ انھوں نے وہاں پر بی جے پی کے دفتر کو نظر آتش کردیا ہے۔ این آر سی کا خوف ان لوگوں کو بھی تب پریشان کئے ہوئے ہیں۔ کسی ریاست میں بی جے پی کے لیڈران ہی بغاوت پر آمادہ ہوچکے ہیں اور بی جے پی کے خلاف محاز آرائی کیے ہوئے ہیں۔ شیو سینا بی جے پی میں دراڈ پڑ چکی ہیں۔ بی جے پی کو حکومت 10 ریاستوں میں سمٹ کر رہ گئیں ہے۔ اور اب پورا ہندوستان انکی نفرت آمیز سیاست سے واقف ہوچکا ہے۔ کچھ ہی ایسے بے شرم اور بزدل نا ہنجار، نتھو رام گڑسے، انگریزوں کی پیداوار حرام خور ملک و قوم کے آئین کی دھجیاں اڑانے والے ہیں۔ جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اب امن پسند و ملکی اتحاد پر وابستہ اکثریت سڑکوں پر اتر چکی ہیں۔ اور وہ سمجھ چکی ہے کہ آج تک آزادی کے بعد سے صرف عوام کو مذہب کے نام پر بانٹ کر سیاست کی گئی۔ اور آج بھی اسے بنیاد پر بی جے پی اقتدار پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہی۔ لیکن جیسے جیسے ملک کی عوام کو صاف ذہن رکھنے والے انصاف کے پیمانے پر محاسبہ کرنے والوں کو معاشی طور پر جس مین نوٹ بندی اور بے روزگاری ، مہنگائی جیسے چیزوں کی مار پڑی ہے انھوں نے اب اپنی آنکھیں کھول لی ہیں۔
مذہبی منافرت پھیلا کر سیاست کے اس گندے کھیل کو عوام سمجھ چکی ہیں کس طرح سے‌ انکا صرف استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک غریب مزدور طبقے جو روز کی محنت کی کمائی سے گزر بسر کرتا ہے آج مہنگائی بڑھنے کی وجہ انکی زندگی کتنی مشکل ہوچکی ہے۔ اسی طرح خط افلاس سے نیچے گزارنے والوں کا مذہبی منافرت پھیلانے کیلے انہیں آگے کر کے انکا استعمال فرقہ پرست سیاسی جماعت بی جے پی کرتی آئی ہے اور انہیں مشکل حال میں چھوڑ کر اپنا الو سیدھا کرتے آئے ہیں۔ اب ان نوجوانوں کو سمجھنا چاہیے کہ کوئی لیڈر تمہیں پوری زندگی بھر ساتھ نہین دینے والا یہ تو اپنی سگی ماں کے نہیں ہوئے تو تم کس کھیت کی مولی ہو، تمہاری عادت بگاڑ کر یہ لوگ تمہارے ذہنوں میں نفرت پھر کر آپس میں لڑانے کا کام کرتے ہیں۔ اور انتخابات کے وقت مین ایک ٹائم کا کھانا دے کر چند پیسے دارو پلا کر تمہیں خوش کر دیتے ہیں۔ لیکن جس وقت تمہارے اپنے بچے تمہارا انتظار کرتے ہیں کہ میرا باپ آئے گا اور کچھ کھانے کیلے لے کر آئے گا لیکن تم نشے کی حالت میں کہے انکے پارٹی کے پنڈال میں پڑے رہتے ہو یا گلی کوچوں میں ا
گلے میں پارٹی کا رومال ڈالے ہوئے گھومتے ہو یا کسی نالی یا گٹر میں پڑے رہتے ہو ، زرا سوچیئے تمہارے بچوں پر کیا گزرتی ہوگی اور اس عورت پر جسکے تحفظ اور اسکے نام و نفقہ کی ذمہ داری تم پر ہوتی ہے وہ معاشرے میں کیا منہ دکھانے کے لائق رہپی ہوگی۔ وہ کیسے لوگوں کی نظروں کا سامان کرتی ہوگی۔ کیا وہ اس معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کا لائق رہ جاتی ہے۔ تمہارا غلط استعمال ہوتا آیا ہے۔ اب اس بات کو سمجھ لو کہ تمہاری زندگی اور تمہارے بچوں کے مستقبل کے ساتھ یہ فرقہ پرست سیاستدان کای کر تے آئے ہے۔ اب ضرورت ہے کہ ان نا اہل سیاستدان دانوں کے تختہ الٹ دیے جائیں اب یہ وقت خاموشی کا نہیں ہے۔ ہوش میں آجائے اس سے پہلے کہ اپنے ہی ملک میں تمہیں پرایا کردیا جائے۔
پورا ملک آئین کی حفاظت اور اپنے حقوق کیلے سڑکوں پر اتر چکا ہے۔ یہ احتجاج ایک بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہے۔ ضرورت ہے کہ اب حکومت کے تختہ کو الٹ دیا جائے یہی انصاف کا تقاضہ ہے کہ جو فرقہ پرست اقتدار جماعت ملک کی عوام کو مذہب کے نام پر لڑانے کا کام کر رہی ہو جو ملک کے دستور اور آئین کی پامالی کر رہی ہو، سو ملک کی عوام کے حقوق کو چھین رہی ہے، جو خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے میں ناکامیاب ہو، جو ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں ناکام ہوچکی ہو، جو نوجوانوں کو روزگار دینے کے لائق نہیں رہی ہو، جو مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام ہو، جو عوام کے بنیادی ضروریات پر لگارہی ہو اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اب ضرورت ہے کہ اس نظام عالم کی تبدیلی کو سمجھے اور وقت کی نزاکت کا ادراک رکھتے ہوئے ہر ایک ہندوستانی اپنے اور اپنے بچوں کے تحفظ کی خاطر ملک کے دستور کے بچاؤں کیلے سڑکوں پر اتر کر ہٹلر شاہی حکومت کا تختہ الٹ کر رکھ دے۔ اور یہ عوام کر سکتی ہے۔ کیونکہ معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے مگر نا انصافی پر نہیں۔ جب وقت کے فرعونوں کا ظلم و جبر تشدد حد سے تجاوز کرتا ہے تو پھر کوئی موسی بھی انکے خاتمہ کیلے ضرور پیدا ہوتا ہے جو انکے قلعوں میں زلزلہ پیدا کردیتا ہے اور انکی حکومتوں کو زیر کرتا ہے اور پھر عدل و انصاف پر مبنی حکومت قائم ہوتی ہے۔ انشاء اللہ یہ دور بھی اب ایک بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ اس ضرورت ہے عوام کے ذہنوں سے نفرت کو ختم کیا جائے انہیں عوامی مفاد اور انسانی حقوق کے بارے میں متعارف کروایا جائے۔ بہت جلد ایک نئی صبح ہوگی۔

Comments are closed.