این آر سی اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

 

مفتی محمد اشرف قاسمی

مہد پور ضلع اجین (ایم پی)

 

کفار کی طرف سے مسلمانوں کوحراستی کیمپوں (Detention camps)میں ڈالا جانایا جلا وطن کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے(سورہ ابراہیم آ یات نمبر 13و14) اور ایسے حالات سے مقابلہ کرنے کے لئے اسلام عملی نظام بھی پیش کرتا ہے۔سب سے پہلے شعب ابی طالب میں پیغمبر اسلام (ﷺ) اور آ پ ﷺ کے رفقاء کی نظربندی ہوئی تھی۔(سیرت ابن ہشام ج 2ص14تا16) ایسی صورت حال میں بھی آ پﷺ دین کی دعوت پیش فرماتے رہے یہاں تک کہ اس کے لئے آ پ ﷺ نے طائف کا سفر فرمایا۔(المواھب اللدنیۃ ج1 ص56) کفار کے مظالم سے پریشان ہو کر مسلمانوں کی ایک جما عت نے نبوت کے پانچویں سال حبشہ کی طرف ہجرت کی، دشمنوں نے وہاں کے سلطان کے کان بھرے،تو حضرت جعفر طیار ؓ نے ایک سنجیدہ اور بے باکا نہ بیان سے سلطان کو قائل کیا، آ خرکارکفارناکام ہوئے۔(سیرت ابن ہشام ج1 ص343 المواھب اللدنیۃ ج1 ص51 رحمۃ للعلمین ج 1ص72)

ظلم ونا انصافی کے بڑھتے وچڑھتے ماحول میں خدائی حکم کی بنا پر آ پ ﷺ کے جانثار رفقاء اور خود حضرت رسول اللہ ﷺ کو مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا گیا۔ ”یہی وہ دور، سفر طائف تا ہجرت، ہے جس میں سورہئ یوسف نازل ہوئی تھی۔“(محسن انسانیت ص 226نعیم صدیقی مرکزی مکتبہ اسلامی 1968ء) یا د رکھیں! سورہ یو سف ایک بے گناہ قیدی کی ایسی داستان کو بیان کرتی ہے، جو دعوت کی بدولت صرف جیل سے نہیں بلکہ ڈراؤنے جنگل میں بغیر مونڈیر والے اندھیرے کوئیں سے نکل کرپورے ایک ملک کے خزانے کا سِکریٹری (Secretary)اور حاکم بنا۔ قر آن نے اس سورت میں بیان کردہ واقعہ کو احسن القصص(سورہ یوسف آ یت3) یعنی بہترین نمونۂ عمل(Good Ideology) کہا۔ اس سورت میں صرف مظلوم کو مظلومیت کے اندھیروں سے نکلنے کا راستہ نہیں بتا یا گیا، بلکہ ایک نمو نہ پیش کیا گیا ہے، کہ داعی مظلومیت کے اندھروں سے نکل کر قلم دان کا مالک اور زمام اقتدار پر قابض ہوسکتا ہے۔

واقعہ ہجرت کے بعد یہ نہیں ہوا کہ آ پ ﷺ اور آ پ ﷺ کے رفقاء پُرسکون ہو کر زمین کے ایک ٹکڑے میں زندگی بسر کرنے لگے، بلکہ مکہ کے لوگ وہاں بھی آ ﷺ کے خلاف سازشیں کرتے رہے، پھر یہودیوں نے بھی نبوت کے خلاف ہر طرح پریشانیاں کھڑی کیں،(سیرت ابن ہشام ج 2ص 167و168و169)نیز جاہ ومنصب کے طلبگارمنافقوں نے بھی حضرت رسول اللہ ﷺ اور آ پ ﷺ کے رفقاءؓ کو مدینہ سے نکالنے کا منصوبہ بنا یا۔ اس منصوبہ میں جہاں یہ بات شامل تھی کہ کشت وخون کے ذریعہ انہیں بھگا یا جائے، وہیں یہ بھی طے کیاگیا تھا کہ ان کی ما لی مدد روکی جائے۔(المنافقون آ یات نمبر7و8 سورہ توبہ آ یت نمبر107و108و109تفسیر ابن کثیر ج 4ص210 تا217) اس موقع پر مکہ کے شعب ابی طالب(Detention camps) کی تفصیلا ت اور حضرت یوسفؑ کے واقعہ کو سامنے رکھتے ہوئے مدینہ کی صورت حال کو دیکھیں اور حضرت رسول اللہﷺ کے طریقہ اور سنت پر غور کریں۔آپﷺ نے مدینہ کے ارد گرد آ باد الگ الگ مذاہب کے ماننے والے مختلف قبائل سے باہم تعاون کے لئے معاہدہ فرمایا۔ حضرت رسول ﷺ نے مقامی اور پردیسی مسلمانوں میں مواخاۃ(بھائی چارہ کا رشتہ قائم) کرایا، زمین خرید کر عریشہ کی شکل میں مسجد نبوی کا مقدس جھونپڑا بنوایا۔ اور ا س مسجد کے ایک حصے صفہ میں باہری غیر مقامی طلباء کی تعلیم کے لئے اقامتی مدرسہ(Residential School) قائم کیا،اسی کے ساتھ اپنی دعوتی مہم میں برابر مصروف رہے،(سیرت ابن ہشام ج 1ص118تا204)

مقامی بچوں کے لئے گھروں کے علا وہ آ ٹھ مسجدوں میں اجتماعی تعلیم کا غیر اقامتی نظام (Day schools) شروع کیا۔(السنۃ قبل التدوین ص 299و خطبات بہا ول پور ص314 موضوع عہد نبوی میں نظام تعلیم محمدحمید اللہؒ) معاصر ضروریا ت کے پیش نظر غزوۂ بدر کے قیدیوں (کافروں) سے یہ طے ہوا کہ: جو ہما رے بچوں کو لکھنا پڑھنا، اور جوڑنا گھٹانا سکھا دے۔ اس کی طرف سے فدیہ یہی خدمت ہو گی۔(مسند احمد ج 1ص247) یہ فدیہ آ ٹھ ہزار دراہم(8000) تھا۔ جس کی قیمت اس وقت بیس لا کھ روپے ہوتی ہے، یعنی فاقہ مستی کے عالم میں بھی،آج کے دور کے لحاظ سے درجہ اول (1st standard)کے صرف دومضامین زبان(Language) اورریاضی(Mathematics)کے لئے ایک بچے پر دو لاکھ روپیہ خرچ کیا گیا۔ اس طرح آ پ ﷺ نے مرغن کھانے،خوش پوشاکی، خوبصورت تعمیرات کے بجائے تبلیغ اور تعلیم پر پوری طرح توجہ فرمائی۔ جس کا انجام یہ ہوا کہ صرف آ ٹھ سال کے قلیل عرصہ میں اسی مکہ میں جہاں سے بالکل بے سہارا ہوکر نکلنا پڑا تھا، فاتح بن کر پوری شان وشوکت کے ساتھ داخل ہو ئے۔ اورعرب و عجم کی عظیم سلطنتیں بھی آ پ ﷺ کے سامنے سرنگوں ہو گئیں۔

Comments are closed.