احتجاج کیوں اورکس طرح؟

ڈاکٹرمفتی محمد مصطفی عبد القدوس ندوی
صدر:کلیۃ البحث و التحقیق،جامعۃ العلوم گڑھا – گجرات
اس وقت ملک كکے طول وعرض میں ہرطرف صدائے احتجاج كکی گونج ہے ،گو فسطائی طاغوت اورحکومت كکی طرف سےصدائے احتجاج میں رخنہ ڈالنے كکی ہر ممکن كکوشش جاری ہے ،ایک طرف شرپسند تنظیم ہندوتوا كکے علم بردار بجرنگ دل اور آر ایس ایس اورپولیس کی طرف سے جارحیت میں کوئی كکمی نہیں ، ظلم وبربریت كکا بازار گرم ہے ،پرامن احتجاجیوں كکے گھروں میں گھس گھس كکر مار پیٹ کا سلسلہ جاری ہے ، شریف لوگ جو خاموش احتجاج میں حصہ لیتے ہیں ، تو ان کو زبردستی گرفتار كکیا جارہا ہے ، ان پر لاٹھی برسائی جارہی ہے ، بےضررننھے منے معصوم بچوں كکو بھی بخشا نہیں جارہا ہے ، مدرسے كکے نابالغ بچےجن کا کوئی قصورنہیں ہے اور نہ ہی ان میں پولیس اوردوسرے کو نقصان پہونچا نے کی طاقت ہے، ان كکو بھی دوڑایا جاتا ہے اور ان كکولاٹھی سے مارا جاتا ہے ، نوجوان ك کیا؟ خواتین اور بوڑھے كکو بھی زبردستی گرفتار كکر کے گاڑیوں میں دھکیل دھکیل کربیٹھایا جاتا ہے، نابالغ گرفتار کئے گئے بچوں كکواس قدر اذیت دی جاتی كہےکہ وہ جب رِہا ہوکر گھر واپس آتے ہیں تو اتنے ڈرے اور سہمے ہوتے ہیں كکہ عام لوگوں اوررپورٹر کے سامنے آنے سےبھی ڈرتے ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق خبیث النفس اورفطرت مسخ پولیس ان بچوں كکے ساتھ بد فعلی، لواطت كکا عمل بھی كکرتے ہیں ، اس وقت ایک عجب خوف وہراس كکا ماحول بنایا جارہا ہے، مزید آگے سنئےاس سے بڑھ کر اور کوئی ظلم ہوسکتا ہے کہ مسجد سے نکلنے والے نمازیوں كکو مسجد كکے گیٹ پر ہی پولیس لاٹھی سے نشانہ بنارہی ہے، مسجد سے نکلنے بھی نہیں دے رہی ہے ، اگر كکچھ نمازی ہمت كکرکے مسجد سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوجا تے ہیں تو ان كکو گیٹ پر اور باہر دوڑا دوڑاکر مار رہی ہے ، مارنےوالے كکو ذرا بھی شرم وحیا نہیں آتی كکہ کس کو مار رہے ہیں ؟ اپنے ہی ملک کے باشی کو مار رہے ہیں ، جن کا کوئی قصور نہیں ، وہ تو احتجاج بھی نہیں كکررہے ہیں ۔ غرضیکہ ظلم كکی كکہانی بڑی لمبی ہے ، اس کا نقشہ کھینچنےسے زبان قاصر اورقلم عاجزہے، صحافی كکے الفاظ بھی تنگ دامنی کے شاکی ہیں ،ظلم کی داستان بیان کرنےکےلئےپہاڑ جیسا كکلیجہ چاہیئے،بہر حال ظلم ، ظلم ہے ، ظلم وبربریت كکی كکوئی مذہب اجازت نہیں دیتا ہے،اوریہ بھی حقیقت ہے کہ ظلم كکا سایہ دیر پا نہیں رہتا ہے ،اور اللہ ظالم كکو كبھی نہیں بخشتا ہے ، ظلم کی سزا دے كکر رہتا ہے ، اورظالم کو ظلم كکے لحاظ سے ایسی سزا دیتا ہے جو دوسروں كکے لئےعبرت كکا سامان اورتنبیہ بن جاتی ہے۔
حیرت اورافسو س کی انتہا اس وقت نہیں رہتی ہے ، جب ملک کے وفادار کو غدار كکہا جاتا ہے ، گویا یہ ایسا ہوگیاجیسا کہ مثل مشہور ہے كکہ ’’چور بولے زور سے ‘‘معمار ملک کے وارثوں اوران کی نسلوں کو جب غدار اور خائن کہا جائےگا تو پھر ملک كکےوفادارکون ؟ وہ لوگ ملک كکے وفادار کہلائیں گے؟ جن كکو وفا كکےمعنی تک معلوم نہیں ، كیا ملک کے وفادار رہزن كکہلائیں گے؟ كیا ملک کےوفادار وہ لوگ كکہلائیں گے جو ملک كکے قانون كکی دھجیاں اڑا رہے ہوں ، كیا ملک كکے پاسبان وہ لوگ کہلائیں گے؟ جو ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہوں ، كیا وہ لوگ رعایا پرور اورجمہوریت نواز کہلانے کے لائق ہیں ؟ جو ملک کی جمہوریت کو دن دہاڑے ذبح كکے در پے ہوں،سمودھان کے محافظ اور ملک كکے رکھوالے ہی اگر سمودھان کو پامال کرنے اورملک کو برباد کرنے كکے لئے ٹھان چکے ہوں ، تو اس ملک اور اس ملک کے سمودھان کا کیا حال ہوگا ؟ وہ کسی سے مخفی نہیں ، اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے ، اب خدا تم سےسمجھے۔
یہ احتجاج منصف پسند دبے،کچلے بھارتیوں کی آواز ہے ، یہ احتجاج بلاتفریق قوم وملت سیکولر دُکھی ہندوستانیوں کی صدا ہے، یہ احتجاج مظلوم غریب ومسکین باشیوں کی پکار ہے ، یہ احتجاج مسلم اور برادران وطن خواندہ اور ناخواندہ ملے جلے ستم زدہ لوگوں كکی ندا ہے ، یہ احتجاج انڈین پریشان حال ، بے سروسامان، حقوق سے محروم اور مزدوروں کی آواز ہے ،یہ احتجاج صنف نازک، باشعور خواتین كکے كلام نازک سے عبارت ہے، یہ احتجاج خالی پیلی چیخ وپکارنہیں ہے بلکہ یہ ملک بچاؤ کی ك تحریک اوردستور بچاؤ کی آواز ہے ،یہ یہاں كکے ناگرکتاؤں کوآگاہ کرنے سے عبارت ہے كکہ جمہوریت خطرہ میں ہے ، یا دوسرےالفاظ میں كکہئے کہ جمہوریت كکی کشتی سمندر كکے بیچ بھنور میں پھنس گئی ہے ، اپنے رکھوا لوں ، اپنے باشندوں ، وفادار امبیڈ کر بابا ، گاندھی ، نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد كکو ماننے والے بھارتی شہریوں سے پکار پکار کہہ رہی ہے ، بچاؤ، بچاؤ ، بچاؤ ،دوڑو دوڑو ، اگر تم لوگوں نے فوری نہیں بچایا تو میں غرق ہوجاؤں گی ، اس کے بعد تلاش گمشدہ بن جاؤں گی ، پھر مجھ سے ملاقات دشوار ہوجائےگی ، آؤ، آؤ ، آؤ ، میرے چاہنے والے كہاں ہیں ؟میرے چاہنے والوںکا راستہ مت روکو….
احتجاجیوں كکے احتجاج اورمظاہرین كکے مظاہرے كکو دبانا دراصل جمہوریت كکا گلا گھونٹنا اور دستور ہندکا خون كکرنا ہے،مظلوم پر ظلم وبربریت كکو روا کرناہے ، غریبوں کو مزید غربت كکی طرف دھکیلنا ہے ،قانونی حق پبلک سے چھیننا ہے ،اس طرح ملک میں جنگل راج كکو فروغ دینا ہوگا ایک نظریہ والے کو ہوا دینا ہوگا ،اور ملک كکو تباہی وبربادی کی طرف لے جانا ہوگا ، اس کی خوبصورتی، ہمہ رنگی کو نوچنا اوربدنما کرنا ہوگا؛ لیکن عوام اب جاگ چکی ہے ، عوام كکی آواز کو طاقت سے کچلا نہیں جاسکتا ، نہ انہیں بہکایا اور گمراہ کیا جاسکتا ، ان كکی ایک ہی آواز“CAA, NRC اور NPRکو واپس لو’’پورے طور پر بائیکاٹ‘‘۔
جہاں تک یہ سوال کہ احتجاج كیوں ہورہا ہے ؟ تو اس کا جواب بالکل واضح ہے كکہ یہ ایک قانونی حق ہے كکسی بھی نامناسب قانون كکا وِرود كکرنے كکا حق پبلک کو قانونی طورپر حاصل ہے ، عقل انسانی كکا بھی تقاضا ہے کہ“CAA, NRC اورNPR بل جو کہ عوام کے حق میں سراسر ظلم پر مبنی قانون ہےاور ظلم كکے خلاف صدائے احتجاج بلند كکرنے كکا حق مظلوم كکو حاصل ہو، ہاں !اتنا ضرور ہے كکہ پرامن احتجاج ہو، پرتشدد نہ ہو، توڑ پھوڑ نہ ہو،کسی كا ہنسا نہ ہو، سرکاری اور غیرسرکاری پراپرٹی کا نقصان نہ ہو ، اورجہاں یہ ضروری ہے ، وہیں یہ بھی ضروری ہے كکہ حکومت پرامن احتجاجیوں كکوبغیر کسی قصور كکے زبردستی گرفتار نہ كکرے ، ان كکو زدوکوب نہ کرے، ان کو احتجاج سے نہ روکے ،ان كکو دھمکی نہ دے ، پولیس ان كکی محافظ ہوں نہ كکہ رہزن وجلاد، اور دشمن نہ بنیں ،اگر دوسرے شرپسند عناصر ان كکی صفوں میں گھس كکرظلم كکریں تو سوالیہ نشا ن اٹھتا ہے كہ آخر وہ پولیس كکی صفوں میں كکیسے آئے؟ نہ كکہ مزید ان کی حمایت كکرنا ، پشت پناہی كکرنا اور ان کو ظلم وزیادتی کا بازار گرم کرنے کا موقع دینا ۔
اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یقینا اسلام نے بھی مظلوم كکو احتجاج كکرنے كکا حق دیا ہے ؛ چنانچہ اللہ تعالی كکا ارشاد ہے {لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا}[نساء:۱۴۸] “اللہ بری بات كکے زور سے كکہنے کو پسند نہیں کرتے ، سوائے اس شخص كکے جس پر ظلم ہواہو، اور اللہ خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں ۔” تمام مذاہب میں اور تمام عقل سلیم رکھنے والے لوگوں کے نزدیک بری بات كکا زبان پر لانا بھی برا ہے ؛ البتہ مظلوم كو سچائی کے دائرہ میں رہتے ہوئے ظالم كکے خلاف زبان کھولنے کی اجازت ہے ؛ چنانچہ علماء محدثین وفقہاء نےلکھا ہے کہ مظلوم كکے لئے ظالم کی غیبت كکرنا جائز ہے؛ كکیونکہ اس كکا مقصد اپنے آپ كکو ظلم سے بچاناہےاور دوسروں كکو بھی اس كکے شرسے محفوظ رکھنا ہے۔ (دیکھئے: إحياء علوم الدين للغزالي:۹/ ۶۵، آفات اللسان، رياض الصالحين للنوي، باب ما يباح من الغيب، ص: ۵۳۸، شرح نووی علی مسلم :۲/ ۳۲۲، باب تحریم الغیب، الرفع والتکميل في الجرح والتعديل، إيقاظ – 1 – فيما ليس بغيب، ص:۴۴)۔
یقینا اسلامی نقطۂ نظر سے بھی آداب احتجاج میں سے یہ ہے جب بھی ظلم كکے خلاف صدائے احتجاج بلند ہو تو مہذب اور سلیقہ سے ہو، پرامن احتجاج ہو، پرتشدد نہ ہو، توڑ پھوڑ نہ ہو، کسی كا ہنسا نہ ہو، سرکاری اور غیرسرکاری پراپرٹی کا نقصان نہ ہو، ورنہ معاملہ الٹ جائےگا اورمظلوم ہونے كکے بجائے ظالم ہوجائیں گے۔ اسی طرح اللہ كکے حکم كکو نہ توڑا جائے، جہاں اللہ تعالی سے دفع ظلم کی دعا کرنی ہے ، وہیں اس كکے احکام کو پامال بھی نہیں كکرنے ہیں ، نماز اپنے وقت پڑھنےکا اہتما م ہو،کسی موقع پر صبر وتحمل کا دامن نہ چھوڑا نہ جائے ، كکیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں سکھایا ہے كکہ مصیبت وآفت كکےوقت اللہ تعالی سے مدد كکیسے طلب كکی جاتی ہے ؟ دیکھئے ! اللہ تعالی کا ارشاد ہے :{يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ}[بقرہ:۱۵۳] “اے ایمان والو! صبراور نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد چاہو، یقنا اللہ صبر کرنے والوں كکے ساتھ ہیں ”{إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ}[یوسف:۹۰]“جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے اور صبر سےکام لیتا ہے تو یقینا اللہ اچھے عمل كکرنے والوں کا اجر ضائع نہیں فرماتے”۔
اسی طرح احتجاج کے دوران اللہ تعالی سے کا میابی کی پوری اور بھرپور امیدرکھی جائے ، زبان پردعا بھی ہو کہ “ اے اللہ !ہمارے بس میں جو ہے وہ ہم کررہے ہیںکامیابی تیرے ہاتھ میں ہے ، ہمیں اس مہم میں كکامیاب فرما”۔ نیز اس احساس كکے ساتھ كکوئی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہونچاسکتی اور نہ ہی ہمار ا کچھ بگاڑ سکتی جب تک کہ اللہ نہ چاہے، اور زبان یہ ذکر برابر رہے “لاحَول ولا قوّۃ إلا بِاللہِ العَليِّ العَظِيم” جب پولیس كکی طرف سے یا كکسی دوسر ے شر پسند عناصر كکی طرف سے گزند وتکلیف پہونچا ئے جانے کا قوی اندیشہ ظاہر ہو، لاٹھی چل رہی ہو، یا گولی چل رہی ہو تو ایسے وقت میں ثبات قدمی کے ساتھ پرامن احتجاج كکرتے ہوئے یہ دعا ضرور آپ کی زبان رہے «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ وَأَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ»۔
اگرا ن اصول وآداب كکی رعایت کے ساتھ احتجاج ہو، تو انشاء اللہ ضرور نتیجہ خیز اورکامیاب احتجاج ہوگا اور مراد پوری ہوگی ، دشمن كکے عزائم پست ہونگے، ان کی سازش ناکام ہوگی اور ہماری کامیابی كکی منزل قریب سےقریب تر ہوتی چلی جائےگی ، اور اللہ كکی ذات سے پوری امید ہے کہ“CAA, NRC بل واپس ہوکر رہے گا ، اور NPRموقوف ہو کر رہےگا۔
Comments are closed.