ملک گیر احتجاج : فائدہ یہ ہوا کہ ملک کے عوام فسطائی طاقتوں کو پہچان گئے

 

( وقت ایک نئی تاریخ لکھنے کی تیاری کر چکا ہے ، اور اس میں ہم سب کا حصّہ ہے )

مشرّف عالم ذوقی

 

دو دن قبل جامعہ سے فون آیا کہ سر اپنے بارے میں بتائیے ، ہم آپکو بلانا چاہتے ہیں . پہلا سوال تھا کہ اپنے بارے میں کیا بتاؤں ؟ بے شناخت اور بیمار ؟ میں بیمار اور بے شناخت ہوں ، اسی طرح جیسا کہ ان دنوں میرا ملک ہے . کیا بتاتا کہ میں کون ہوں ؟ ایسے سفاک وقت میں جب فسطائی شدت پسندوں نے اس ملک کو ہائی جیک کر لیا ہے . جنکے چہروں سے خون ٹپکتا ہے .جنکی آوازوں میں نفرت اور جن کے دماغ سے تشدد کی مزایلیں نکلتی ہیں اور ملک کے چین و سکوں کو غارت کرتی ہیں . میرے پاس بولنے کے لئے ، کچھ کہنے کے لئے نہیں .لیکن انکے پاس ہے جو نوجوان ہیں اور اس ملک کا مستقبل لکھنا چاہتے ہیں اور تعلیم یافتہ ہیں . جو ہماری طرح خاموش نہیں اور صدیوں کی شناخت کو قائم رکھنا اس وقت جن کی ذمہ داریوں میں شامل ہے . وہ بھول گئے ہیں کہ انکو ڈگریاں بھی لینی ہیں .حاکم وقت سے انھیں روزگار بھی چاہیے اور سیاست سے الگ بھی ایک زندگی ہے ، جہاں ابھی انہیں قدم رکھنا باقی ہے . مگر اس وقت وہ بیمار نظام اور بیمار ملک کے لئے انقلاب اور احتجاج کی آواز بن گئے ہیں .وہ جانتے ہیں کہ دو گجراتی ٹھگوں نے نفرت کی سرجیکل اسٹرائیک کے بعد ملک کو ہزاروں برس پیچھے کی طرف دھکیل دیا ہے . معیشت خطرے میں . بینک دیوالیہ ، پڑوسی ممالک سے رشتے خراب . عالمی سیاست نے ہندوستان کی پیشانی پر شرم لکھ دیا ہے . جاہلوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے . اور ساری دنیا ا ن فسطائی ، نازی طاقتوں کی مذمت کر رہی ہے . پاکستانی ناول نگار اور دانشور اقبال خورشید نے عہد کے خطرات کو محسوس کرتے ہوئے لکھا ،

ہمیں لکھنے کی سمت پلٹنا ہوگا، اس سے پہلے کہ ہم اپنی یادداشت سے محروم ہوجائیں۔ٹیکنالوجی، تیز رفتاری اور سوشل میڈیا کے پے درپے وار سہتا انسان توجہ مرکوز رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا جاہا ہے، جس نے براہ راست اس کی یادداشت پر سرجیکل اسٹرائیک کی ہے۔

موجودہ سیاست ہمیں یادداشت سے محروم کرنا چاہتی ہے .اس پر آشوب موسم میں لڑنا اور لکھنا بھی ایک ضرورت ہے .جب ہم سوچتے ہیں ، در اصل اس وقت ایک بڑے انقلاب سے گزر رہے ہوتے ہیں . اور موجودہ وقت اس ادب و صحافت کے لئے ہے جس سے نکلنے والی چنگاریاں فسطائی محلات کو پھوکنے ، اسکے شیرازے بکھیرنے میں اہم کردار ادا کریں گی .

آج ملک گیر سطح پر بند کا اعلان ہوا .احتجاج اور انقلاب سے ریاستی سطح کی پارٹیوں کو نیی زندگی ملے گی . سی پی آی کا متحرک ہونا بھی جیت ہے . عوام کا متحد ہونا بھی . مگر انکی ہوشیاری اور چالاکیاں پہلے سے زیادہ تیز ہونگیں . ابھی انہوں نے علیگڑھ ، جامعہ اور جے این یو پر حملہ کیا تو بی ایچ یو کے ساتھ ہندوستان کے بیشتر تعلیمی ادارے انقلاب کا حصّہ بن گئے . نیا بھارت ہمارے وہ نوجوان متحد ہو کر بناییں گے جو رنگا اور بلا سے نجات چاہتے ہیں . کیوں کہ ان رنگاؤں اور بلاؤں نے ملک کو نہ صرف ہزاروں برس پیچھے دھکیل دیا بلکہ ہندوستان سے جمنا گنگا تھذیب کے شیرازے بکھیرنے کی قابل مذمت کوششیں بھی کر ڈالیں اور اس وقت ملکگیر سطح کے احتجاج میں ایک بڑی آواز یہ بھی ہے کہ ملک کو ان رنگاؤں بلاؤں سے مکتی دلانے کی کوشش کی جائے .

 

آج کے احتجاج و انقلاب کی تیاریوں کا جائزہ لیتا ہوں تو فرانس کا انقلاب یاد آتا ہے . جو صورت حال اس ملک کی ہے ، کبھی وہی صورت فرانس کی تھی . اور جب پانی سر سے بلند ہو گیا تو عوام نے غصّے میں ان شاہی محافظوں کو کچل دیا جو فرانس کے بادشاہ کے حکم پر ظلم و بربریت کی کہانیاں لکھا کرتے تھے . آج اتر پردیش سلگ رہا ہے .ایک ڈھونگی نے مسلمانوں پر قہر برپا کیا ہوا ہے . جامعات سے نکلنے والی صداؤں کو خاموش کیا جا رہا ہے . گولیاں برسایی جا رہی ہیں .معصوموں کی ہلاکتیں سامنے آ رہی ہیں . اور فرانس کا انقلاب ہمیں آواز دیتا ہوا نظر آتا ہے ..

فرانس میں ان دنوں بوربون خاندان کی حکومت تھی۔بادشاہ کے اپنے لوگ تھے .اپنا عدالتی نظام تھا . ہر شعبے پر حکومت تھی .عوام نے تنقید کا حق کھو دیا تھا .فرانس نے تمام عدالتی منصب فروخت کر دے تھے . ۔دولت مند تاجر منصبوں اور عھدوں کو خریدتے تھے اور آج ہندوستان کی یہی کہانی ہے .، امبانی کی بیوی نام نہاد ہندو تنظیموں کو بیدار ہونے کا مشورہ دیتی ہے. امبانی گروپ اس وقت ملک کی سب سے بڑی طاقت ہے . میڈیا بک چکا ہے . الیکشن کمیشن ، خفیہ ایجنسیاں سب پر مودی امت شاہ کا قبضہ او ر

پورے ملک میں بڑھتی ہوئی ناراضی اب ملک گیر سطح کے احتجاج میں تبدیل ہو چکی ہے . ۔۔اس زمانے میں فرانس کے ججوں کی تنخواہیں کم تھیں .جج بادشاہ کے زیر نگران کام کرتے اور فیصلے لیتے تھے . رشوت خوری کا بازار گرم تھا . .۔ فرانس کی پارلیمنٹ میں صرف ایک ہی کام ہوتا تھا بادشاہ کے ہرحکم کو قانونی اورآئینی شکل دینا . ہمارے یہاں تین طلاق سے لے کر حکومت کے ہر ترمیمی بل کو دیکھ لیجئے .چھ برسوں میں یہی ہو رہا ہے . قانون بدلا جا رہا ہے . آیین کچلا جا رہا ہے . جمہوریت نشانے پر ہے . ،فرانس میں اس وقت بھاری ٹیکس نافذ تھے ۔ جی ایس ٹی نے چھوٹے چھوٹے تاجران کو مار ڈالا .روزگار ختم کر ڈالے . معیشت کی کمر ٹوٹ گیی .ملک ہزارو برس پیچھے چلا گیا . اور ملک کے پٹری پر آنے کی صورت دور دور تک نظر نہیں آ رہی .فرانس کا ۔بادشاہ پیرس سے بارہ میل دور "ورسائی” کے محل میں رہتا تھا ۔اس کے دربار میں اٹھارہ ہزار افراد موجود ہوتے تھے۔.شاہی اصطبل میں انیس سوگھوڑے تھے جن کی دیکھ بھال کے لیے چالیس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوتے تھے اورباورچی خانہ کا خرچ پندرہ لاکھ تھا۔ ہمارا بادشاہ تین سو دن باہر رہتا ہے .دس لاکھ کے سوٹ پہنتا ہے .پارلیمنٹ سے لے کر لال قلعہ تک جھوٹ بولتا ہے . غیر ممالک ٹور پر کروڑوں خرچ کر ڈالتا ہے ، اس ملک میں جہاں کسان اور عوام بھوکے مر رہے ہیں .جی ڈی پی کا گراف دو سے نیچے آ چکا ہے . اور حکمران نفرت نفرت ، تشدد تشدد کھیل رہے ہیں . فرانس بھی دیوالیہ تھا .ہندوستان بھی . وہاں لاکھوں مزدور بے کار تھے .یہاں ہندوستان بیکار اور بے روزگار ہے .۔فرانس کے جیل خانے معصوم اوربے قصورلوگوں سے بھرے پڑے تھے یہاں اربن نکسل ، دلت اور بے گناہ مسلمانوں کو جیل میں ڈالا جا رہا ہے . فرانس میں بادشاہ کے خلاف پیدا ہوئی نفرت انقلاب میں تبدیل ہو گیی ۔ 14جولائی 1789کا دن ، انقلاب کے اگتے سورج کا دن تھا ۔پیرس میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور اس کے بعد فرانس میں وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ آج ہندوستان اسی تحریک چوک پر کھڑا ہے .پورا ہندوستان فسطائی طاقتوں کے خلاف کھڑا ہے . فلمی دنیا ، دانشور ، تمام مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رنگا بلا کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں ..

کیا یہاں بھی وہی ہوگا جو فرانس میں ہوا ؟

یہ کہانی بتدریج اسی طرف جاتی دکھایی دے رہی ہے . کس نے سوچا تھا کہ محض چھ برس میں نفرت کے سوداگر ملک کا یہ حال کر دیں گے کہ پورے ملک کو بیداری اور نیے انقلاب کے لئے اٹھ کھڑا ہونا ہوگا ..

فیض کی نظم یاد آتی ہے ..

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم

 

اور نکلیں گے عشاق کے قافلے

 

جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم

 

مختصر کر چلے درد کے فاصلے

 

کر چلے جن کی خاطر جہانگیر ہم

 

جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم

 

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

اب ہم تاریک راہوں میں ہلاک نہیں ہونگے .. اب اس ملک میں انقلاب کی نیی کہانی لکھی جا چکی ہے.

Comments are closed.