Baseerat Online News Portal

حکومت کی اصلاح کے لئے حضرت مجددالف ثانی کے انقلابی کارنامے

مولانارضوان احمد ندوی
معاون ایڈیٹر ہفتہ وار نقیب امارت شرعیہ پٹنہ
اس وقت ہندوستانی مسلمان نہایت ہی کرب واضطراب اورذہنی کش مکش کے دورسے گذررہے ہیں، مرکزکی برسراقتدارپارٹی اوراس کی حلیف جماعتیں نت نئے سیاہ قانون کے ذریعہ یہاں کے مسلمانوں کے عرصہ حیات کو تنگ کرناچاہتی ہے، تاکہ وہ دوسرے درجہ کا شہری بن کر زندگی بسرکرے، اس عہدانقلاب اورپرفتن دور میں بعض حیثیتوں سے دسویں صدی ہجری کے مرد کامل حضرت امام ربانی مجددالف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی (۹۷۱؁ھ۔۱۰۳۴؁ھ)کے طریقہ کاراورحکمت عملی کامطالعہ ناگزیر معلوم ہوتاہے کہ آخر وہ کیاطریقہ کارتھاکہ ایک فقیر بے نوانے ایک گوشہ میں بیٹھ کر سلطنت وملک کے رخ کو بدل دیااوران کی تجدیدی واصلاحی کارناموں کے فیوض وبرکات کے سامنے ارکان سلطنت سرتسلیم خم ہونے پر مجبورہوگئے۔
حضرت مجدد الف ثانی بن مخدوم شیخ عبدالاحد۱۵۶۳ء میں شہر سرہندپنجاب میں پیدا ہوئے، صغرسنی سے بعض عجیب وغریب واقعات ظہورمیں آنے لگے، سیرت امام ربانی کے مولف نے لکھاکہ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے خلیفہ عبدالعزیزآپ کی ولادت کے دن سرہندمیں موجود تھے، آپ نے وہاں کشفی حالت میں ملائکہ کا ہجوم دیکھا(ص:۵۷)عہدطفولیت میں بھی وہ کبھی ننگے نہیں ہوئے، بول وبراز کے موقعہ پر اتفاقا کبھی آپ کا بدن ننگا بھی ہوجاتاتوبڑی جلدی بدن کو ڈھانپ لیتے،تعلیم وتربیت میں بھی معلم کاادب واحترام کمال درجہ میں فرماتے تھے، ذہانت وفطانت اورخدادادصلاحیت سے بہت جلد مقام علیاتک جاپہونچے اورہرفن میں درک وکمال پیدا کرلیا،پھر تزکیہ باطن کے لئے حضرت خواجہ باقی باللہ (۱۰۱۲ھ)کے استانہ پر حاضر ہوئے، بیعت وارشاد سے راہ سلوک کے مدارج عالیہ طے کیا، ان کے باطنی کمالات کی شہادت دیتے ہوئے خودان کے پیرومرشدنے کہاکہ حضرت مجددالف ثانی وہ آفتاب ہیں جن کی روشنی میں ہم جیسے ہزاروں ستارے گم ہیں، آپ کے فضل وکمال کی شہرت سن کراس عہدکے بڑے بڑے علماء حدیث وتفسیرکی کتابوں کی سند آپ سے حاصل کرنے میں اپنی سعادت سمجھنے لگے،اسی زمانے میں ابوالفیض فیضی نے تفسیربے نقط سواطع الالہام کے نام سے لکھنی شروع کی، انہیں ایک مقام پر الجھن پیداہوئی، انہوں نے حضرت مجددالف ثانی کی خدمت میں اپنی عاجزی ظاہر کی، آپ نے اس کے مقام کے مناسب تفسیرنہایت فصیح وبلیغ بے نقط عبارت میں قلم برداشتہ تحریر فرمائی،اس طرح آپ کے علم وفضل کاسکہ عوام وخواص کے علاوہ اراکین سلطنت کے دلوں میں بھی بیٹھتاچلاگیا، آپ نے ہندوستان میں مغلیہ خاندان کے دوبادشاہوں کودیکھا،پہلابادشاہ جلال الدین محمداکبر(المتوفی ۱۰۱۴ھ)جس کا عہدحکومت ۱۵۵۶ سے ۱۶۰۵ء تک یعنی کم وبیش پچاس سال اوردوسرا شہنشاہ ابولمظفرنورالدین جہانگیرجس کی حکومت ۱۶۰۵ء سے ۱۶۲۷ء تک یعنی بائیس سال تک تھی، حکومت کے ابتدائی دور میں بادشاہ اکبرکو بزرگوں سے بڑی عقیدت تھی، وہ نیازمندانہ طریقہ سے مجالس ذکروسماع میں شریک ہواکرتے تھے، لیکن ناخواندہ ہونے کی وجہ سے مذہب اورعقیدہ کے معاملے میں ان کا دماغ بے لگام ہوگیاتھا،ہرمذہب اوردین کے فضلاء کے خیالات کو اپنے اندر سمونے لگا، پادریوں اورپنڈتوں کی مجالس منعقد کرنے لگا، درباری علماء نے بھی جاہ طلبی کی امید میں اکبر بادشاہ کے مزاج کوبدلنے میں بڑا موثرروال اداکیا، ملاعبداللہ سلطانپوری، مولانا عبدالنبی فیضی اورابوالفضل نے بادشاہ کو علمی اسلحہ فراہم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، حتی کہ شرعی حدود وقیود کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بادشاہ کوامیرالمومنین کاخطاب اورمجتہدتک کا سرٹیفکٹ دیدیا، شیخ مبارک نے ایک محضر نامہ تیارکیا اوراس پر علماء سے دستخط کروائے ،اس مختصرنامہ کے چندجملے یہ ہیں:ہندوستان جیساوسیع ملک سلطان جہاں پناہ کے عدل وانصاف وتدبیروانتظام سے دارالامن بن چکاہے، اورہرجگہ کے خواص وعوام خصوصا عرب وعجم کے علماء وفضلاء یہاں آکر مقیم ہوچکے ہیں، حدیثوں اورعقلی ونقلی دلائل وشواہد کی بناپر ہم یہ فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک سلطان عادل کا مرتبہ مجتہدکے مرتبہ سے بڑھ کر ہے، لہذا سلطان الاسلام جلال الدین اکبر بادشاہ غازی اگر عوام کی سہولت اورمملکت کے انتظامی مصالح کی خاطر دین کے ان مسائل میں جو مجتہدین کے نزدیک اختلافی ہوں کسی بھی ایک صورت کو تجویز کرکے اس کے مطابق احکام کااجراء فرمائیں توان کی تجویزوحکم متفق علیہ متصورہوگا اوراس کی اطاعت وپیروی تمام رعایہ پر لازمی اورقطعی ہوگی اور جس وقت سلطان عالم پناہ کوئی بھی ایساقانون اورحکم نافذ فرمائیں جوعوام کے لئے باعث سہولت ہواورنصوص شرعیہ کے مغائر نہ ہواس پر عمل درآمد ہرشخص پر لازم وقطعی ہوگا اوراس کی مخالفت عذاب اخروی اورخسران دینی ودنیوی کا موجب ہوگی۔(حضرت مجددالف ثانی ص۳۰۷)اس مختصر نامہ نے بادشاہ کے لئے اجتہاد کا دروازہ کھول دیا، پھر کیاتھااس امی بادشاہ نے عقلی گھوڑے دوڑانے شروع کردئے، دین اکبری کی طرح نئے دین کی بنیاد ڈال دی، اس کے لئے راجپوت راجائوں کے ساتھ رشتہ کی استواری شروع کردی ان کی دل جوئی کے لئے قشقہ لگانا، ہندوانہ رسم ورواج میں حصہ لیناحتی کہ سجدہ تعظیمی بجالانے کے لئے لوگوں کو مجبورکرنا بادشاہ کا محبوب مشغلہ بن گیا، نماز،روزہ اورحج کو ساقط کردیا، دیوان خانہ میں کسی کی مجال نہ تھی کہ علانیہ نماز اداکرسکے،سود کھانا،جوئے کھیلنا،شراب نوشی کرنا وغیرہ کو حلال قراردیدیاگیا، اس طرح شریعت محمدیہؐ بازیچہ اطفال بن گئی،زندقہ بدعت اوراغراض پرستی کی کالی گھٹائیں افق پرچھائی ہوئی تھیں۔اللہ نے اس عہدضلالت میں دین کی ڈوبتی کشتی کو ساحل مرادتک پہونچانے کے لئے حضرت مجدد الف ثانیؒ کو کھڑا کیا، انہوں نے پہلے مرحلہ میں اپنے فہم وتدبیراورہمت وپامردی سے درباری علماء اورمقربان سلطنت کے نام نصیحت آمیزپیغامات ارسال کئے،ارکان حکومت کی اصلاح کے لئے عوام کو بیدارکیا،انہیں اللہ کی وحدانیت اوررسول کی رسالت پر پختہ یقین کرنے کی دعوت دی، درباریوں نے ردعمل شروع کردی اور بادشاہ سلامت اورجہانگیرکے کان بھرنے شروع کردیئے ،ان دونوں پر سیاسی رنگ چڑھا ہوا تھا،اورجب کسی شخص پر اقتدار کا نشہ سوارہوتاہے تووہ انجام سے بے خبر ہوکر طاقت کا استعمال کرتاہے، یہاں بھی یہی ہواکہ جہانگیر نے حضرت مجدد الف ثانی کو ناحق قلعہ گوالیارمیں نظربندکروادیا، جہاں وہ ایک سال تک اسیر رہے،وہاں بھی خلوت کے موقعہ پر ایثاروخلوص کے کامل جذبات کے ساتھ وہ اپنی خوشبو بکھیرتے رہے، کہاجاتاہے کہ کئی ہزارغیرمسلم قیدی آپ کی صحبت وتربیت سے مشرف بہ اسلام ہوئے، ادھر بہت سے صحیح العقیدہ اراکن سلطنت پراس حبس بے جا کا برا اثر ہوا، بادشاہ کو بھی اپنے اقدام سے ندامت ہوئی، آخرکار انہیں رہاکرنے کا حکم صادرکردیا، قید سے رہائی کے بعد حضرت مجدد الف ثانیؒ اپنے مشن میں لگ گئے، صاحب عزم وارادہ کبھی اپنی نشان منزل سے غافل نہیں ہوتے، انہوں نے اہل مناصب کے نام خطوط وپیغامات بھیجنے شروع کردیئے جس میں صفحہ قرطاس پراپنے دل کے ٹکڑے اتارکر رکھ دئے،اس وقت خواص وعوام کی بے شمار جماعت آپ کے ساتھ تھی، آپ نے ارکان حکومت کی اصلاح بادشاہ کی اصلاح پرمقدم رکھا،اس طرح آپ نے جہانگیر کے دربار کے ممتاز ارکان کواپنا ہمنوا بنالیا،ایک مورخ نے لکھاکہ ایک فقیربے نوا نے اونچی چوٹیوں پر رہنے والوں کو حیرت انگیز طریقہ سے اپناگرویدہ بنالیا، اب بادشاہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا،ا س نے سجدہ تعظیمی موقوف کردیا، شعائر کی حفاظت ہونے لگی اورویران مساجد آباد ہونے لگیں،خلاف شریعت قوانین منسوخ ہوگئے ، یہاںتک کہ جہانگیرنے آپ کے دست مبارک پر توبہ کیا، اس طرح لوگوں نے بادشاہ کے ملحدانہ عقائد و نظریات سے نجات پائی اورملک میں ایک نئی صبح طلوع ہونے لگی۔ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء
حضرت مجدد الف ثانی نے دوسرا بڑا کارنامہ یہ انجام دیاکہ وحدۃ الوجود یعنی اتحاد وحلول کے باطل نظریے کے مقابلہ میں وحدۃ الشہود کا متوازی مسلک پیش کیااورکج روصوفیوں کے باطل عقیدہ پر کاری ضرب لگائی ،وہ یہ کہ وحدۃ الوجود سالک کے سیروسلوک کی ایک منزل ہے، اس کو مشاہدہ سے نظر آتاہے کہ وجود حقیقی وکامل کے علاوہ کسی چیزکاوجود نہیں جو کچھ ہے وہ سب ایک ہی وجود ہے، باقی اس کی تنوعات ہے(تاریخ دعوت وعزیمت ص ۳۲۸۷)سالک ہو یاعارف اگر عقائد اوراعمال میں کتاب وسنت کا پابندنہیں تووہ قابل تقلید نہیں، وحدۃ الوجود میں شریعت محمدی نہیں تووہ شرار بولہی ہے۔ اس طرح انہوں نے عقل وکشف دونوں کے درمیان حدفاصل کی لکیر کھینچ دی، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے وضاحت کی کہ وحدۃ الوجود کے عقیدہ اورنظریہ کی پردہ کشائی جو اپنے غلو ومبالغہ اوراشاعت ومقبولیت کے نقطہ عروج پر پہونچ چکاتھا اورجس سے عقائد میں تزلزل اورمسلم معاشرہ میں انتشار پیدا ہورہاتھا اوراس کے متوازی وحدۃ الشہود کے مسلک ونظریہ کو مدلل شکل میں پیش کرنا، بدعات کی کھلی ہوئی تردید ومخالفت حتی کہ بدعت حسنہ کے وجود سے بھی انکار اورپھر آخر میں ہندوستان میں اسلام کے اکھڑتے ہوئے قدموں کو جمانے اورہندوستان میں ایک ایساتجدیدی انقلاب لانے کا حکیمانہ اورکامیاب کوشش حضرت مجدد الف ثانی کاوہ اصل تجدیدی کارنامہ ہے جس کوان کے سارے تجدیدی کارناموں پر اولیت وفوقیت حاصل ہے۔(تلخیص اقتباس از تاریخ دعوت وعزیمت ص۱۹۲)
آگے تحریر فرماتے ہیں کہ شیخ احمد سرہندی کی بڑی کامیابی یہی ہے کہ انہوں نے ہندی اسلام کو متصوفانہ انتہاپسندی سے خود تصوف کے ذریعہ نجات دلائی، شایداس کی وجہ یہ ہے کہ جس نظریہ کی انہوں نے تردید کی اس کے مطلب ومفہوم اورقدروقیمت کا ان کو ذاتی طورپر عمیق ادراک تھا، مولانا محمد منظورنعمانی نے لکھاکہ اس امت کے ابتدائی دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جن بندوں سے تجدیدی نوع کی خدمات لیں ان میں خلیفہ راشد حضرت عمربن عبدالعزیز کا کارنامہ بہت ممتاز ہے، اسی طرح آخر ی دور میں امام ربانی شیخ احمد سرہندی نے دین کی تجدید وحفاظت اوراحیاء شریعت کا جو عظیم کام ہمارے اس ملک میں لیا وہ بھی اسلام کی پوری تاریخ میں ایک خاص امتیازی شان رکھتاہے۔(الفرقان فروری ۱۹۵۹ء)
انہوں نے قیدوبند کے مصائب برداشت کئے، طعنہ سہے لیکن اپنے دعوتی مشن سے کبھی غافل نہ رہے، اس لئے ہمارا مزاج بھی داعیانہ ہونا چاہئے اوردعوت دین کو ہماری زندگی کا جزونہیں بلکہ پوری زندگی بن جاناچاہئے اوراس کے لئے ان تمام تر صلاحیتیں اورقوتیں وقف کردینی چاہئے ،ساتھ ہی ارکان حکومت کی اصلاح کے لئے عوام کو بیدارکرنااوران میں ایسے جذبات پیداکرناجن کا احتجاجی اثرارباب حکومت کو اپنی طرف متوجہ ہونے پر مجبورکردے،جیساکہ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے کیایہ بھی ضروری ہے۔ بلاشبہ آپ کے تجدیدی کارنامے اورایسے عظیم اورگرانقدر ہیں کہ جن سے اسلام کے نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوتاہے ،آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے ان اصلاحی اورتجدیدی مساعی کو مزید ثمرآوربنایا۔

Comments are closed.