بیان بازی یا زبان درازی ـــــ؟

شہلا کلیم
یہ کوئی نئی بات نہیں ـ بیان بازی سیاست کا نہ صرف ایک بنیادی اصول ہے بلکہ حق بھی ہےـ لیکن مسائل تب پیدا ہوتے ہیں جب بیان بازی زبان درازی میں تبدیل ہو جائےـ گزشتہ کچھ برسوں سے جتنی کثرت سے جہالت بھرے بیانات کے معاملے سامنے آئے اور ستم بالاے ستم کہ انہیں منوانے پر بھی زور دیا گیا اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ بیان بازیوں کے زمانے ختم ہوئے یہ زبان درازیوں کا دور ہےـ دلیل کے طور پر زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں حالیہ بیانات پر ہی نظر دوڑا لیں ـاور زبان درازیوں کے اس دور میں اگر راجیہ سبھا ممبر اور بھاجپا کے بڑے نیتا کے پاس روپے کی حالت سدھارنے کا بہترین حل دیوی لکشمی کی تصویر میں ہے تو یہ بھی کوئی حیرانی والی بات نہیں کیونکہ ایسا بھی پہلی بار نہیں ہوا احمقانہ بیانات و حرکات اس پارٹی کی شان بن چکے ہیں ـ جن کے نزدیک دیش کی عوام کی حفاظت رافیل کرتا ہو اور خود رافیل کی حفاظت نیبو مرچ کے ذمے ہو ان سے اس سے زیادہ کی امید بھی فضول ہے شاید یہی نا امیدی وجہ رہی ہو کہ اس بار غریب کسانوں سے زیادہ بے روزگاری سے پریشان لوگوں نے خود کشی کی ـ کیونکہ انہیں یقین ہو چلا تھا کہ اب ’’ کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘ والا معاملہ ہو چکا ہےـلیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس پورے عرصے میں حکومت کیا کرتی رہی؟ وزیر اعظم کیا صرف بھاشن دیتے رہے؟ جی نہیں! اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مزید کام بھی کئے ـ دراصل جناب وزیر اعظم کو عوام تو کجا دنیا کی ہر چیز سے زیادہ اپنا نام عزیز ہے لہذا انہوں نے اپنے نام سے جَڑے قیمتی لباس زیب تن کئے، نام کمانے کی خاطر بڑے بڑے ملکوں کے سفر کیے اور اسی نام کی پبلسٹی کیلیے کروڑوں روپے اشتہارات پہ خرچ کیے آپ کو یہ جان کر حیرانی نہ ہو کہ ایک رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم کے غیر ملکی سفر اور اشتہاروں پر اب تک ۶۶ ارب خرچ ہو چکے ـ کل ۸۴ غیر ملکی دوروں پر ہونے والا خرچ ۲۰۰۰ کروڑ ہے جن میں سب سے زیادہ یعنی پانچ مرتبہ امریکہ گئے ـاور سرکاری اشتہارات پہ ہونے والا خرچ ۴۶۰۷ کروڑ ہے ـ لیکن عوام فکر نہ کریں حکومت کے پاس اس کا بہترین حل موجود ہے ـ بس دیوی لکشمی کی تصویر لگائیے اور دو کے چار بنائیے اور لکشمی جی پہ وشواس بنائے رکھیے دیوی جی بہت جلد سمادھان کرینگی ـاب آپ کرونولوجی سمجھیے ایسے ماحول میں جب کہ سیکولر طبقے کو ناگرکتا ثابت کرنے اور کرونولوجی سمجھنے میں لگا دیا گیا ہو اگر اتفاقی یا حادثاتی طور پر مندرجہ بالا رپورٹ سامنے آ جاتی ہے تو کیا سوامی جی کا یہ بیان بھکتوں کو لالی پاپ دینے اور ۶۶ ارب پر پردہ ڈالنے کی ایک احمقانہ کوشش نہیں ؟ آخر بی جے پی کے پاس ہر مسئلے کا حل مذہبی ، روایتی اور غیر سائنٹفک طریقوں میں ہی کیوں ہے ـ دعوی امریکہ کی ہمسری کا اور حال یہ کہ ہر مرض سے شفا گو موتر کےذریعے، رافیل کی حفاظت نیبو مرچ کے ذریعے اور حد تو یہ کہ روپے کی ترقی کا راز دیوی کی تصویر میں ـ لیکن اس کا دوسرا رخ بھی ہے دراصل یہ حماقت نہیں بلکہ ان کے اپنے کچھ سیاسی داؤ پیچ ہیں ـ ملک کے اعلی عہدوں پر فائز لوگ اگر احمقانہ باتیں کرنے لگ جائیں تو یہ محض حماقت نہیں سیاسی چال ہوگی کیونکہ وہ بخوبی واقف ہیں کہ سیکولر طبقہ نہ سہی شخصیت پرست لوگوں کو تو باآسانی بے وقوف بنایا ہی جا سکتا ہے جو کہ اکثریت بھی ہیں ـ اور ایسا ہوا بھی ہے کہ جب ان لوگوں کی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت جیسے مسائل کی طرف توجہ دلائی گئی تو انہوں نے مندر مسجد اور ہندو مسلم ایشوز پر اکتفا کیاـ نتیجتا جب انہیں بات کرنی چاہیے تھی بے روزگاروں کی خودکشی کے آنکڑوں پر ، جب انہیں سوال کرنا چاہیے تھا وزیر اعظم کی نجی زندگی پر خرچ ہونے والے اربوں روپیوں اور ان سے حاصل شدہ فوائد پر ،جب انہیں یاددہانی کرانا چاہیے تھی نوٹ بندی کے وقت کیے گئے دعوؤں پر ، جب انہیں مانگ کرنا چاہیے تھی وعدے کے مطابق واپس آئے کالے دھن کی اور جب انہیں توجہ دلانی چاہیے تھی ۲۰۱۶ کے اس تاریخی وعدے کی جانب جس میں صرف پچاس دن کی مہلت مانگی گئی تھی؛ تب وہ صرف لکشمی دیوی کی تصویر سے بہل گئےـــــ قابل غور یہ ہے کہ ایک پڑھے لکھے لیڈر کا نوٹ پر دیوی کی تصویر لگانے کا مقصد محض آستھا یا برکت نہیں ہو سکتا کہیں یہ دھیرے دھیرے مہاتما گاندھی کو مکمل بےدخل کرنے کی طرف پہلا قدم تو نہیں یا پھر اس بات کی جانب اشارہ کہ لکشمی کی تصویر کی آڑ میں عوام ایک بار پھر نوٹ بندی کا دکھ جھیلنے کیلیے تیار رہیں ـ کیونکہ جب RBI کی رپورٹ کے آگے ۲۰۱۶ کے تمام وعدے منھ کے بل گر چکے ہوں، نوٹ بندی کا عمل مکمل طور پہ فلاپ ہو چکا ہو، نئے نوٹوں کی شان میں پڑھے گئے سبھی قصیدوں نے منھ کی کھائی ہو اور مجبورا رفتہ رفتہ آر بی آئی دو ہزار کے نئے نوٹوں کا پروڈکشن ختم کرتی جا رہی ہو ایسے وقت میں بھاجپا نیتا سبرا منیم سوامی کے بیان کو سمجھنا مشکل کام نہیں ـ خیر جو بھی ہو نوٹ بندی اور نوٹ تبدیلی کا قصہ بھی ستر سال پرانا ہےـ جیسا کہ ہمیں علم ہے نوٹ پر کس کی تصویر ہوگی اس فیصلے کا حق RBI کو ہے ـ آر بی آئی کی ویب سائٹ کے مطابق آزادی کے بعد ۱۹۴۹ میں پہلی مرتبہ ایک روپے کے نوٹ کا ڈزائن تیار کیا گیاـ آزاد بھارت کیلیے نشان کا چناؤ ایک مسئلہ تھا شروعات میں طے کیا گیا کہ برطانیہ مہاراج کی جگہ مہاتما گاندھی کی تصویر لگائی جائے اس کے ڈیزائن بھی تیار کیے گئے لیکن آخر میں اشوک سمبل پر اتفاق ہوا ـ پھر ۱۹۵۰ میں جمہوری ملک میں پہلی مرتبہ دو ، پانچ ، دس اور سو کے نوٹ اور ۱۹۵۴ میں ایک ہزار، دو ہزار اور دس ہزار کے نوٹ جاری کئے گئے لیکن ۱۹۷۸ میں مؤخر الذکر کو پھر سے بے دخل کر دیا گیا اور اب تک کی پوری تبدیلی میں مختلف رنگوں اور نشانات کے ساتھ نوٹ منظر عام پر آتے رہےـ ۱۹۶۹ میں گاندھی جی کے ۱۰۰ویں جنم دن کے موقع پر پہلی مرتبہ نوٹ پر مہاتما گاندھی کی تصویر چھپی ـ اس کے بعد آر بی آئی نے ۱۹۷۲ میں بیس کا نوٹ، ۱۹۷۵ میں ۵۰ کا نوٹ، اکتوبر ۱۹۸۵ میں ۵۰۰ کا نوٹ اور اکتوبر ۲۰۰۰ میں ایک ہزار کا نوٹ مہاتما گاندھی کی تصویر کے ساتھ جاری کیا لیکن ۸ نومبر ۲۰۱۶ میں ۵۰۰ اور ۱۰۰۰ کے نوٹ پھر سے باہر کر دئے گئے اور اسکی جگہ۵۰۰ اور ۲۰۰۰ کے نئے نوٹوں نے لی ـ دوسرے نوٹ بھی رنگ روپ کی ذرا سی تبدیلی کے ساتھ لانچ ہوئے ـ یہاں بات چونکہ بیان بازیوں کی ہے لہذا اس پس منظر میں پھر سے اپنے موضوع کی جانب لوٹتے ہیں آپ کو یاد ہوگا ۲۰۱۶ کی نوٹ بندی کے دوران کالے دھن سے نجات کا حوالہ دیا گیا تھا دلیل کے طور پر دو ہزار کے نئے نوٹ کو نینو ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈیزائن کیے جانے کا دعوی کیا گیا تھاـ اور یہ کوئی عوام کے ذریعے اڑائی جانے والی افواہ نہیں تھی بلکہ گودی میڈیا نے اس دعوی کو ثابت کرنے کےلئے دن رات جتن کئے تھے کہ نئے نوٹ میں این جی سی چپ کا استعمال کیا گیا ہے جس کے چلتے نقلی نوٹ بنانے یا نوٹوں سے چھیڑ چھاڑ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاـ اس کے ذریعے بلیک منی کو با آسانی ٹریک کیا جا سکےگا اور نہ صرف لوکیشن کا پتہ لگایا جا سکےگا بلکہ کرنسی نمبر کی جانکاری بھی حاصل کی جا سکےگی اور اس طرح آتنکواد، بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ بالخیر ہوگا ـ اور اس پورے عمل کیلیے وزیر اعظم کی جانب سے محض پچاس دن کی مہلت مانگی گئی تھی اور ۲۰۱۶ میں انہوں نے علی الاعلان یہ وعدہ کیا تھا کہ ’’اگر تیس دسمبر کے بعد میری کوئی کمی رہ جائے ، میری کوئی غلطی نکل آئے یا میرا کوئی غلط ارادہ نکل آئے آپ جس چوراہے پہ مجھے کھڑا کریے میں کھڑا ہو کر دیش جو سزا کرےگا وہ سزا بھگتنے کیلیے تیار ہوں ۔ ـ’’اب ۲۰۱۶ سے اب تک کی آر بی آئی رپورٹ بھی ملاحظہ ہو آر بی آئی کے مطابق ۵۰۰ کے نئے نوٹ میں نقلی نوٹ کے چلن میں ۱۲۱ فیصدی کا اضافہ ہوا ہے اور دوہزار کے جعلی نوٹ سب سے زیادہ اس صوبے میں پائے گئے جسے گجرات ماڈل ہونے کا دعوی ہےـ لہذا اس بڑی ناکامی پر دیوی لکشمی کی تصویر کا پوسٹر چپکا کر پردہ ڈالنا ان کی مجبوری ٹھہری ـ واضح ہو یہ وہی نوٹ ہیں جن کے سلسلے میں دعوی تھا کہ ان سے چھیڑ چھاڑ کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا اور اگر تیس دسمبر کے بعد وزیر اعظم کی کوئی غلطی یا غلط ارادہ پایا گیا تو وہ بیچ چوراہے پہ عوام کے ذریعے تجویز کی جانے والی سزا کے آگے سر تسلیم خم کر دینگےـ آخر میں ہم بس اتنا ہی کہیں گے کہ محترم سال ۲۰۱۹ کا دسمبر بھی رخصت ہوا لہذا ایفاے عہد کا وقت ہوا چاہتا ہے!!
Comments are closed.