Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
اوڑھنی پر مسح
سوال:- جوبہنیں حج و عمرہ کے لئے جاتی ہیں، وہ حالت احرام میں سر پر ایک خاص قسم کی اوڑھنی باندھ لیتی ہیں؛ تاکہ بال ٹوٹنے نہ پائیں، بعض خواتین اسی اوڑھنی کے اوپر سے سر کا مسح کرلیتی ہیں، یہ کہاں تک درست ہے؟سنا ہے کہ سعودی عرب کے علماء بھی اس کی اجازت دیتے ہیں۔ (صائمہ کوثر، سکندرآباد)
جواب:- جن اعضاء پر مسح کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان پر براہ راست مسح کرنا ضروری ہے، بالواسطہ مسح کرنا کافی نہیں ، جیسے کوئی شخص ٹوپی پہنے ہوا ہو اور ٹوپی کے اوپر سے مسح کرلے تو کافی نہیں ہوگا، اس سے صرف دو صورتیں مستثنی ہیں، ایک چرمی موزہ پر مسح کرنے کی مسافروں کے لئے تین دن و رات اور مقیم کے لئے ایک دن و رات کی اجازت ،چاہے بلا عذر ہو، دوسرے :عذر کی وجہ سے زخم پر باندھی ہوئی پٹی پر مسح کرنے کی اجازت؛ اس لئے سر پر باندھے ہوئے کپڑے پر مسح کرنا کافی نہیں، کپڑاکھول کر احتیاط کے ساتھ بالوں پر مسح کرنا چاہئے؛ کیوںکہ قرآن میں سر پر مسح کرنے کا حکم ہے نہ کہ ٹوپی یا رومال پر :وامسحوا برؤسکم (مائدہ:۶) فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے:لا یجوز علی عمامۃ وقلنسوۃ وبرقع وقفازین لعدم الحرج(درمختار مع ردالمحتار: ۱؍۲۷۲)

زور سے اجتماعی قراء ت
سوال:- کئی لوگوں کا ایک ساتھ مل کر زور زور سے قرآن پڑھنا کیسا ہے ؟ قرآن خوانی میں اسی طرح قرآن پڑھا جاتا ہے اور حفظ کے طلبہ بھی ایسا ہی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں ، براہ کرم حکم شرعی سے آگاہ فرمائیں ؟ (کلیم اللہ، مہدی پٹنم )
جواب:- اصولی طور پر کئی لوگوں کا ایک ساتھ زور زور سے قرآن مجید پڑھنا کراہت سے خالی نہیں ؛ کیوںکہ جب ایک شخص قرآن مجید پڑھ رہاہو، تو دوسرے شخص کو خاموش رہنے اور سننے کا حکم دیا گیا ہے ، اور سب لوگ زور سے پڑھنے لگیں ، تو قرآن کا یہ حق کہ اسے توجہ سے سنا جائے ادا نہیں ہوسکتا : یکرہ للقوم أن یقرؤا القرآن جملۃ لتضمنہا ترک الاستماع و الإنصات ، و قیل لا بأس بہ (طحطاوی علی المراقی:۲۱۵)جہاں تک حفظ کرنے والے بچوں کے پڑھنے کی بات ہے ، تو یہ ایک ضرورت اورمجبوری ہے ؛ کیوں کہ اس کے بغیر قرآن مجید کا یاد کرنا دشوار ہے اور تعلیم کے لئے بعض ایسی باتوں کی اجازت دی گئی ہے، جن کی عام حالات میں اجازت نہیں ہے ، جیسے چھوٹے بچوں کے ہاتھ میں قرآن مجید دینے کی ممانعت ہے کہ اس میں بے احتیاطی اور بے حرمتی کا اندیشہ ہے ؛ لیکن تعلیم کی غرض سے فقہاء نے بچوں کوقرآن دینے کی اجازت دی ہے ۔

دورکعتوں میں ایک ہی سورت کی تلاوت
سوال:- دورکعتوں میں ایک ہی سورت تلاوت کی جائے تو کیا نماز درست ہو جائے گی ؟ (محمد رضوان اللہ، سعیدآباد)
جواب:- افضل طریقہ یہ ہے کہ ہر رکعت میں مختلف سورتیں پڑھی جائیں ؛ کیونکہ رسول اللہ ا کا معمول مبارک یہی تھا ؛ اس لیے بلا عذر ایک ہی سورت کا دونوں رکعتوں میں پڑھنا بہتر نہیں ؛ لیکن نماز ادا ہوجائے گی ؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حسب سہولت وآسانی قرآن مجید کا کوئی بھی حصہ پڑھنے کی اجازت دی ہے : فاقرؤا ما تیسر من القرآن (مزمل:۲۰)؛البتہ اگر کسی شخص کو ایک ہی سورہ یاد ہو ، تو اسے مزید سورتوں کو یاد کرنے کی کو شش کرنی چاہیے اور جب تک ایک ہی یاد ہو ، اسی سورت کو مختلف رکعتوں میں پڑھتے رہنا چاہیے ۔(المحیط البرہانی:۱؍۴۸)

فرض وسنت کی قضاء
سوال:- جو فرض نمازیں قضا ہوجائیں ، کیا ان نمازوں کو اداکرنا ضروری ہے ، اور حدیث سے اس کا کوئی ثبوت ہے ، اورجب یہ نمازیں ادا کی جائیں گی تو کیا ان کے ساتھ چھوٹی ہوئی سنتیں بھی پڑھی جائیںگی ؟ (عفان نعمانی، کوکٹ پلی)
جواب:- جونمازیں نہ پڑھی جاسکیں ان کی قضا کرنا ضروری ہے ، جب تک قضا نہ کی جائیں فریضہ سے سبکدوشی نہیں ہوگی ، رسول اللہ ا اور صحابہ ث کے عہد میں اس کا تصور نہیں تھا کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے ؛ اس لئے اس سلسلہ میں کوئی صریح حدیث نہیں ملتی ؛ لیکن رسول اللہ ا نے تمام ہی فرائض کے بارے میں ایک اصولی بات فرمائی ، ایک خاتون نے پوچھا کہ میری والدہ کا انتقال ہوگیا ، اور ان پر ایک مہینہ کا روزہ ہے ، کیا مجھے ا ن کی طرف سے روزہ رکھنا چاہئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہاری والدہ پر کسی کا دَین باقی ہوتا تو تم اسے ادا کرتیں یا نہیں ؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں ادا کرتی، آپ نے فرمایا : پھر تو اللہ تعالیٰ کا دین زیاد قابل ادائیگی ہے : فدین اللہ أحق أن یقضی (بخاری، حدیث نمبر: ۱۹۵۳) اس سے معلوم ہوا کہ جو عبادتیں ادا نہ کی جائیں ، وہ بندہ کے ذمہ اللہ تعالیٰ کے دین ہیں ، جب تک ان کو ادا نہ کردیا جائے ،وہ انسان کے ذمہ باقی رہتی ہیں ؛ اس لئے نماز میں خواہ کسی عذر کی وجہ سے چھوٹ گئی ہوں یا کوتاہی اور سستی کی وجہ سے چھوڑدی گئی ہو ں ،ہر دوصورت میں ان کی قضا واجب ہے ؛ البتہ سنتوں کے ادا کرنے کی ضرورت نہیں ؛ کیوںکہ قضا صرف واجب کی ہواکرتی ہے :وقال بعضہم لا یقضیہما لاختصاص القضاء بالواجب وہوا لصحیح (عنایہ مع الفتح:۱؍۴۱۸)

بھیگی ہوئی دستی کو جائے نماز پر ڈالنا
سوال:- کیا مسجد میں وضو کرنے کے بعد کچی دستی جائے نماز پر ڈال سکتے ہیں ؟(عطاء اللہ قریشی، ناندیڑ(
جواب:- دستی میں وضو کا پانی پونچھا جاتاہے وضو میں استعمال شدہ پانی کا کیا حکم ہوہے ؟ اس سلسلہ میں فقہاء کے مختلف اقوال ہیں ؛ لیکن صحیح یہی ہے کہ یہ ناپاک نہیں ہے ؛ اس لئے اس کی وجہ سے جائے نماز ناپا ک نہیں ہو گی ؛ لیکن چونکہ بعض فقہاء نے اسے ناپاک بھی قرار دیا ہے اور اگر کپڑے میں ایک درہم سے زیادہ غیر معمولی مقدار میں ماء مستعمل لگ جائے تو اسے نماز کے درست ہونے میں مانع قراردیا ہے (تاتارخانیہ:۱؍۲۱۳)نیز اس میں جسمانی میل وکچیل سے آلودہ پانی لگا ہوتا ہے ، بعض اوقات ناک کی آلائشیں بھی شامل ہوجاتی ہیں ؛ اس لئے ایسی تر دستی کا مسجد کی جائے نماز پر بچھا نا خلاف ادب ہے ؛ اس سے احتیاط کرنی چاہئے ۔

فجر میں مسجد کی لائٹ بند کرنا
سوال:- فجر کے وقت مسجد کی لائٹ بند کردی جاتی ہے ، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ اگر اتنا اندھیرا ہو کہ سجدہ کی جگہ نظر نہیں آئے تو نماز صحیح نہیں ہوتی ، کیا یہ بات درست ہے ؟ ( محمد فیصل علی، نلگنڈہ)
جواب:- فجر کی نماز کے وقت لائٹ جلائی بھی جاسکتی ہے اور بجھائی بھی جاسکتی ہے ، یہ بات درست نہیں کہ نماز صحیح ہونے کے لئے سجدہ گاہ کا نظر آنا ضروری ہے، عام طور پر فجر کی نماز میں لائٹ بجھاکر نماز پڑھنے کا جو معمول ہے ، وہ کسی حکم شرعی پر مبنی نہیں ہے ؛ بلکہ اس میں لوگوں کی سہولت مقصود ہے ، شاید اس کی ابتداء یوں ہوئی ہو کہ فجر کی نماز میں طویل قراء ت کی جاتی ہے ، تو یہ اتنی طویل نہ ہو کہ سورج نکل آئے یا نکلنے کے قریب ہوجائے ؛ کیوں کہ اندھیرے میں زیادہ بہتر طور پر اس کا اندازہ ہو سکتا ہے۔

نمازی کے سامنے رخ کر کے بیٹھنا
سوال:- کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص نماز پڑھ کر مشرق کی طرف گھوم کر بیٹھا ہوا ہے اور بالکل اس کے سامنے ایک دوسرا شخص نمازادا کر رہا ہے ، اس طرح نماز ادا کرنے کاکیا حکم ہے ،نماز ہو جاتی ہے یا نہیں ؟ ( عبدالرحیم، سنتوش نگر)
جواب:- نماز اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی ہے ، اس لیے اگر نمازی کے سامنے کوئی شخص اپنا چہرہ کیے ہوا ہو، تو اس شخص کی عبادت کا وہم پیدا ہو تا ہے ، یا بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے ، اس لیے فقہاء نے ایسی چیزوں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ،جس کی کوئی قوم عبادت کیا کرتی ہے ، یا جس کی عظمت وکرامت ذہن میں ہوتی ہے ؛اسی لیے فقہاء نے لکھا ہے کہ کسی شخص کی پیٹھ نماز ی کے سامنے ہو تویہ درست ہے ، جیسا کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے میں ہوتا ہے؛ لیکن یہ بات کہ نمازی کے سامنے کسی شخص کا چہرہ ہو مکروہ ہے ؛ کیونکہ اس میں اس شخص کی عبادت کا ایہام پیدا ہوتا ہے ؛ اس لیے اگر کوئی شخص مشرق کی طرف رخ کر کے بیٹھا ہو اہو ، تو نمازی کو بالکل اس کے سامنے کھڑا نہ ہونا چاہئے ، اور اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو دوسرے شخص کو اس کی طرف رخ کر کے بیٹھنے میں احتیاط کرنی چاہئے : ویکرہ أن یصلی مواجھا للإنسان ؛ لأنہ یصیر کالمعظم لہ ولا بأس بأن یصلي إلی ظھر رجل (محیط برہانی:۷؍۵۰۵)

مفلوج شخص سنت فطری کس طرح ادا کرے؟
سوال:- دونوں ہاتھ کے فالج زدہ مریض یا مریضہ کے بغل اور زیر ناف کے بال کس سے اور کیسے نکالے جائیں ؟ ( دلدار علی، بشیر باغ)
جواب:- بغل کا حصہ تو محرم کے لیے دیکھنے کی گنجائش ہے ،اس لیے بیٹے باپ کے اور بیٹیاں ماں کے بغل صاف کرسکتی ہیں، البتہ زیر ناف حصہ کا دیکھنا سوائے شوہر و بیوی کے ناجائز و حرام ہے ، اس سے صرف علاج کی صورت مستثنیٰ ہے ، اس لیے مجبوری میں شوہر و بیوی اس میں ایک دوسرے کا تعاون کرسکتے ہیں، البتہ تقاضۂ حیا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو نگاہ پست رکھیں اور ایسا ذریعہ استعمال کریں جو کم سے کم وقت میں اور نسبتاً کم بے ستری کے ساتھ ضرورت کو پورا کردے ، اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرنی چاہئے کہ وہ ایسی آزمائش سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے اور اپنے سوا کسی کا محتاج نہ بنائے ۔

غرباء پر خرچ کرنے کے لیے فکسڈ ڈپازٹ کرانا
سوال:- کسی کے پاس کافی رقم ہے ، وہ اس کو اس نیت سے ڈپازٹ کرائے کہ جو زائد رقم ملے گی ، اس کو ضرورت مندوں پر خرچ کیا کرے گا ، کیا اس مقصد کے لیے رقم ڈپازٹ کرانا جائز ہے ؟ ( محمد امتیاز، چھتہ بازار)
جواب:- کسی بھی عمل کے درست ہونے کے لیے دو باتیں ضروری ہیں ، ایک یہ کہ اس کی نیت درست ہو ، دوسرے اس کا طریقہ بھی درست ہو ، اور شریعت کے کسی حکم کے خلاف نہ ہو ، غریبوں پر خرچ کرنے کی نیت بہت اچھی ہے ، لیکن رقم ڈپازٹ کرانا؛ تاکہ اس سے سود حاصل ہو ، یہ طریقہ حرام وناجائز ہے ، اور سود کی رقم صدقہ کی نیت سے کسی کو دینا بھی گناہ ہے؛ کیوں کہ اس میں صدقہ کی بے احترامی ہے ، اسی لیے رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا : لا یقبل اللّٰہ عز و جل صدقۃ من غلول (ابوداؤد، حدیث نمبر: ۵۹) لہٰذا اس اچھی نیت سے رقم ڈپازٹ کرانا اوراس سے سود حاصل کرنا بھی گناہ ہے ، محض حسن نیت کی وجہ سے یہ عمل جائز نہیں ہوسکتا ۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.