ہندوستان کے شاہین بچے

فضیل احمد ناصری
پچھلے دو ماہ سے این آر سی، سی اے اے اور این پی آر کے خلاف احتجاج لگاتار جاری ہے۔ پورا ملک حکومتی ہٹلر بازی کو مسلسل چیلنج دے رہا ہے۔ زک پر زک پہونچا رہا ہے۔ اس انقلاب کی مجھے توقع تھی، بلکہ بہت زیادہ توقع، چناں چہ فیصلے کے اگلے ہی دن میں نے جو نظم لکھی، اس کا مطلع یوں تھا:
پھر فضائے نیل گوں میں انقلاب آنے کو ہے
ظلمتِ شب کہہ رہی ہے آفتاب آنے کو ہے
اسی نظم کا ایک شعر یہ بھی تھا:
درد کا حد سے گزرنا ہے دلیلِ عافیت
اس صدی کا سب سے طاقت ور جواب آنے کو ہے
اللہ نے اسے سچ کر دکھایا۔ چنانچہ انقلاب آیا اور ایسا آیا کہ اربابِ اقتدار کے دانت کھٹے ہو گئے۔ مشرق و مغرب میں پھیلے احتجاج نے حکومت کی ہٹلر مزاجی کو لرزا کر رکھ دیا۔ دیوبند، علی گڑھ اور دہلی کی یہ تحریک عالمی تحریک بن گئی۔ پورے ملک میں 30 سے زیادہ شہادتیں بھی ہوئیں۔ جامعہ ملیہ دہلی کے طلبہ نے جو قربانیاں دیں اور دے رہے ہیں وہ رہتی دنیا تک تاریخ میں جگمگاتی رہیں گی۔ دنیا بھر میں بیداری کی روح پھونکنے والے در اصل یہی جیالے ہیں۔ شاہین باغ کا مشہورِ عالَم احتجاج بھی انہیں کی تخلیق ہے۔ آج وطنِ عزیز کے طول و عرض میں ہونے والے سارے حجابی احتجاج اسی شاہین باغ کے تراشیدہ ہیں۔ جس طرح دہلی ملک کی راجدھانی ہے، اسی طرح شاہین باغ سارے احتجاجات کا مرکز۔ بلفظِ دیگر آپ اسے ام الاحتجاجات بھی کہہ سکتے ہیں۔ خواتین کے مجاہدانہ کارنامے کبھی ہم کتابوں میں پڑھتے تھے، اب ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ حوا زادیوں کی یہ شجاعت اور محاذ آرائی کی یہ امنگیں پچھلے ایک ہزارے میں کہیں بھی نظر نہیں آتیں۔ ان انقلابی کارناموں کی جب مؤرخ تفصیل لکھے گا تو صفحات کے صفحات سیاہ کر دے گا۔ اگر وہ اس مہم کا حصہ بھی رہا ہوگا تو واقعات نگاری میں اسے مزا بھی بہت آئے گا۔
ملک بھر میں قائم *شاہین باغوں* نے جن کرداروں کو جنم دیا ان میں ایک کردار بچوں کا بھی ہے۔ آج بڑوں کے شانہ بہ شانہ بچے بھی کھڑے ہیں اور فرعونیت کی ہوا نکالنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ملک کا بچہ بچہ فراعنۂ وقت کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ ان کی زبانیں کسی نیزہ اور شمشیر سے کم نہیں۔ وہ جب نعرے لگاتے ہیں تو ان کے جوش سے لبریز الفاظ مخالفین کو ڈرا دیتے ہیں۔ ان کے معصوم چہرے بھی انگارے معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے لاتعداد ویڈیو میری آنکھوں سے گزر چکے جن میں وطنِ عزیز کے نو نہال ظالموں کو للکارتے اور شیر کی طرح دھاڑتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کا جوش و خروش دیکھتے بنتا ہے۔ وہ عمر، جس میں کھیل کھلونے اور آنکھ مچولیاں عزیز ہوتی ہیں، اسی عمر میں وہ آزادی کی صدائیں بلند کر رہے ہیں۔ وہ زمانہ، جس میں انہیں دائیں بائیں کا کوئی شعور نہیں ہوتا، پاکی ناپاکی کی ذرا بھی خبر نہیں ہوتی، ان کی زبانیں فلک شگاف نعرے اگل رہی ہیں۔ ہر بچہ اپنے دوستوں سے آگے بڑھنے کی تاک میں۔ آزادی کی اس تحریک میں ان کی ولولہ انگیزیاں بلاشبہ انقلاب آفریں ہیں۔ حیرت ہے کہ عمر کی اسی منزل میں ہی انہیں ایسے ایسے نعرے آتے ہیں، جن کی بہت سے بڑوں کو ہوا بھی نہیں لگی۔ ایسے ایسے اشعار انہیں یاد ہیں جو بہت سے ادیبوں کی دسترس سے بھی باہر ہیں۔ دہلی کے شاہین باغ کا محمد نامی ایک بچہ تو آزادی کا خواب لیے دنیا سے ہی چلا گیا۔
آج بچوں کے یہ جذبات دیکھ کر مجھے وہ بچے بڑی شدت سے یاد آ رہے ہیں جو پیغمبر ﷺ کے سامنے پنجوں کے بل کھڑے ہو جاتے تھے تاکہ انہیں بھی معرکے میں جانے کی اجازت مل سکے۔ حضرت زید ابن ثابتؓ اور ان جیسے کئی بچے مثال میں پیش کیے جا سکتے ہیں۔
اسلام میں پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں کو محاذ میں شرکت کی اجازت نہیں، مگر صحابہ کے بچے اس قدر پرجوش رہتے کہ بعض اوقات آپ کو ان کی خواہش کا احترام بھی کرنا پڑ جاتا۔ حضرت انس بن مالکؓ غزوۂ بدر کے بعد غزوۂ احد میں بھی شریک رہے، جب کہ عمر 12 اور 13 سال تھی۔ آپ ﷺ غزوۂ بدر میں شرکت کے لیے مدینے سے باہر نکلے تو ایک جگہ اپنی فوج کا جائزہ لیا۔ دیکھا کہ کچھ بچے ہیں تو انہیں واپسی کا حکم دے دیا۔ حضرت عمیرؓ کم سنی کی وجہ سے ادھر ادھر چھپنے لگے کہ کہیں انہیں بھی واپسی کا پروانہ نہ تھما دیا جائے۔ لیکن حضورﷺ کو پتہ چل گیا اور واپسی کا حکم فرمایا۔ وہ رونے لگے۔ پیغمبرﷺ نے ان کے شوق کے چلتے بالآخر اجازت دے ہی دی۔
سمرہ ابن جندبؓ اور رافع بن خدیج کی شرکت کا واقعہ بھی بڑا دل چسپ ہے۔ یہ بھی انتہائی کم عمر تھے، مگر شوقِ جنگ سے لبریز۔
بچوں کی قربانی کے واقعات سیرت کی کتابوں میں کثرت سے ملتے ہیں، جن سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلام کے لیے ان کا دل کس طرح دھڑکتا تھا۔
جاتے جاتے یہ دلچسپ قصہ بھی پڑھ ہی لینا چاہیے۔ حضرت سعد ابن خشبہؓ جنگِ بدر کے وقت کم عمر تھے۔ ان کے والد غزوے میں جانے لگے تو اپنے بیٹے سے کہا: تم دیکھ بھال کے لیے گھر پر ہی رہو، کیوں کہ ہم دونوں میں سے کسی ایک کا یہاں رہنا بہت ضروری ہے۔ بیٹے نے جواب دیا: اگر حصولِ جنت کے علاوہ کوئی اور موقع ہوتا تو میں آپ کی بات مان بھی سکتا تھا۔ میں گھر پر رہنے کو بالکل بھی تیار نہیں۔ بات قرعہ تک پہونچ گئی۔ بچے کا نام قرعہ میں آ گیا۔ والد کو گھر پر رہنا پڑا اور اسلام کے اس چھوٹے فرزند نے غزوۂ بدر میں نہ صرف یہ کہ حصہ لیا، بلکہ شہادت کا جام بھی نوش کیا۔
ابو جہل کو مارنے والوں میں کچھ بچے بھی تھے۔ جب مائیں سچی اور دین کے تئیں اخلاص سے مالا مال ہوں تو بچوں پر بھی اس کے اثرات پڑتے ہیں۔ شاہین باغوں میں ہم نے ماؤں کو بھی دیکھا اور ان کی گڑیا لاڈلیوں کو بھی۔ ان شاءاللہ آگے بھی دیکھیں گے اور فتح کی نعمت سمیٹیں گے۔
Comments are closed.