ازہر ہند سے ازہر مصر تک. *ان آنکھوں نے کیا دیکھا*

شعور مکمل طور سے بیدار بھی نہ ہو پایا تھا کہ دارالعلوم کی پاکیزہ فضا میسر ہوئی. فارسی سے ابتدائی تعلیم شروع ہوکر دارالحدیث کی مسحور کن قال اللہ قال الرسول کی صداوؤں میں کب پہونچا پتہ ہی نہیں چلا. وقت کی برق رفتاری نے سب کچھ بہت جلد سمیٹ دیا اور بلاخر ایک دن وہاں سے رخت سفر باندھنا پڑا دل اس قدر مانوس ہوچکا تھا کہ جدائی کا تصور بھی تکلیف دہ ہوتا تھا ؛
اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے
اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے.
مگر چارو ناچار اس علمی فضا کو خیرآباد کہنا پڑا مزید تعلیمی سلسلے کو بڑھانے کے لیے حیدرآباد جانا ہوا اور یہیں رہتے جامعہ ازہر آنے کا پروگرام بنا.میرے دوست ایمن ظفر مئوی یہاں زیر تعلیم تھے ان کی رہنمائی سے مصر کی اس عالمی یونیورسٹی میں داخلے کا موقع نصیب ہوا فجزاہ اللہ احسن الجزاء
یہاں پہونچنے کے بعدبہت سے ساتھیوں اور محبین کی طرف سے یہ سوال ہوا کہ ازہر ہند اور ازہر مصر میں کیا فرق میں نے محسوس کیا
در حقیقت اس کا جواب وہی شخص دے سکتا ہے جس کے پاس معلومات کا خزانہ ہو، تجزیاتی ذہن ہو، لکھنے پر قدرت ہو ،اور میں یکسر ان چیزوں سے خالی ہوں .
مگر تعمیل حکم میں چند سطور لکھنے کی کوشش کروں گا شاید اپنی بات پہونچا سکوں.
دارالعلوم کے منتسبین کے لیے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا قیام کن مقاصد کے لیے ہوا.
لارڈ میکالے نے جب اپنا نظریہ تعلیم پیش کرتے ہوئے کہا تھا "ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہئے جو ہم میں اور ہماری کروڑوں رعایا کے درمیان مترجم ہو اور یہ ایسی جماعت ہونی چاہئے جو خون اور رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی ہو، مگر مذاق رائے، الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو”
تب حضرات اکابر دیوبند نے لارڈ میکالے کے نظریہٴ تعلیم کو ناکام بنانے اور اعلیٰ تعلیمی و تربیتی مقاصد کے لیے دارالعلوم دیوبند قائم فرمایا، کہ ایسے افراد تیار کیے جائیں جو رنگ و نسل کے اعتبار سے ہندوستانی، ایرانی، ترکستانی، افغانی وغیرہ ہوں لیکن ذہن و فکر اور دل و دماغ کے اعتبار سے حجازی اور محمدی ہوں
اور اس مقصد کے حصول کے لیے جو نظام اور نصاب قائم کیا وہ بھی قابل تعریف ہے.
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رح جن کتابوں کو پڑھ کر عالم افق پر روشن ستارہ بن کر چمکے اسی سے ماخوذ دارالعلوم دیوبند کا نصاب مرتب ہے جسے ہم "درس نظامی” کے نام سے جانتے ہیں
اس کی خصوصیت ذکر کرتے ہوئے حضرت مولانا عبدالحئ رح صاحب لکھنوی رقم طراز ہیں:اس (درس نظامی) نصاب کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ طالب علموں میں امعان نظر اور قوت مطالعہ پیدا کرنے کااس میں بہت لحاظ رکھا گیا ہے اور جس کسی نے تحقیق سے پڑھا ہو تواس کو پڑھنے کے ساتھ ہی اگرچہ کسی مخصوص فن میں کمال حاصل نہیں ہوجاتا لیکن یہ صلاحیت ضرور پیدا ہوجاتی ہے کہ آئندہ اپنی محنت سے جس فن میں چاہے اچھی طرح کمال پیدا کرے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں سے نکلنے والے بہت علماء کرام نہ صرف ہندستان بلکہ عالم عرب میں بھی اپنی علمی صلاحیتوں کا ڈنکا بجایا.
چنانچہ مشہورحنفی عالم علامہ زاہد الکوثری رحمہ اللہ نے علامہ شبیر عثمانى رح کی کتاب فتح المہلم دیکھی تو انہیں ایک خط لکھا جس میں ان کی علمی قابلیت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”انتم یامولانا فخر الحنفیة فی ہذا العصرحقا”
یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ فہرست طویل ہے جس کا ذکر تکرار محض کے سوا کچھ نہیں.
جب مقاصد پر سرسری نظر ڈالی جائے اور وہاں کے چوٹی کے علماء کا ذکر خیر سامنے آتا ہے تو دل بے ساختہ دارالعلوم کو ازہر ہند کہنے پر مجبور ہوتا ہے
چونکہ تحریر کا مقصد ان چند مشاہدات کو بتانا ہے جو میں نے دیکھایامحسوس کیا اس لیے اس کا تذکرہ میں نے ضروری سمجھا۔ مشہور علی الالسنہ نام "ازہر ہند”اور مصر کے جامعہ ازہر کا نام جب ایک ساتھ لیا جاتا ہے تو اول وحلہ میں لگتا ہے کہ شاید ان دونوں میں موازنہ کیا جاسکتا ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے
دارالعلوم دیوبند ایک خالص دینی ادارہ ہے جو ایک خاص مقصد کے لیے وجود میں آیا جس کا ذکر اوپر ہوا جب کہ جامعہ ازہر ایک یونیورسٹی ہے جس میں تمام علوم کے ساتھ دینیات اور اسلامی علوم بھی اس کا ایک شعبہ ہے
جامعہ ازہر میں طب ہو، یا تجارت ریاضی ہو، یا منطق و فلسفہ ،حدیث ہو فقہ و اصول فقہ، قانون ہو یا لغت ،ان سب کے الگ الگ شعبے قائم ہیں
ابتدائی تعلیم کے لیے 6 سالہ معہد ،
اس کے بعد چار سال کا ایک کلیہ ہوتا ہے اس کے بعد دو سال تمہیدی ماجیستر کا کورس ہے پھر دو سے چار سال کا رسالے کا کورس ہے پھر تقریبا 5 سال کا دکتورہ کا کورس ہے
جس فن سے آپ کو دلچسپی ہو اس فن کے کلیہ میں جاکر اس طریقے سے متخصص ہو سکتے ہیں
کلیہ تک لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کا انتظام الگ الگ ہے ، دراسات علیا میں کلاسیں ایک ساتھ ہوتی ہیں، البتہ نشستیں الگ الگ متعین ہیں. مخلوط ہونے کے باوجود ایسی فضا ہے کہ کوئی بھی لڑکا کسی لڑکی سے بات کرتا دکھائی نہیں دیتا لڑکیاں عام طور پر فینسی حجاب میں ملبوس ہوتی ہیں جن میں چہرہ دلیل آفتاب کے طور پر کھلا رکھتی ہیں ہاں کچھ لڑکیاں مکمل باپردہ بھی ہوتی ہیں.
دارالعلوم دیوبند کا طرز تدریس قدیم ہے کہ استاذ سامنے بیٹھ جائے اور شاگرد زمین پر اس کے چاروں طرف بیٹھے ہوں یہ طریقہ جامعہ ازہر کا نہیں ہے یہاں کا طرز یونیورسٹی والا ہے میز کرسی پر پڑھائی ہوتی ہے البتہ مسجد ازہر میں آج بھی قدیم طرز پر اساتذہ کے حلقے لگتے ہیں اور ان حلقوں سے ہر شخص مستفید ہوسکتا ہے نہ رجسٹر ہے نہ امتحان، صرف استاذاور طلبہ.
ان حلقوں میں ہر طرح کے فن مثلا حدیث، اصول حدیث، فقہ ،اصول فقہ ،لغت، نحو، صرف، بلاغت کے دروس ہوتے رہتے ہیں. کون سے استاذ ،کون سے فن کی ،کون سی کتاب، کس جگہ پر، پڑھائیں گے یہ پوری تفصیل ازہر کے فیس بک پیچ پر روز نشر ہوتی ہے.
الحمدللہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اصول حدیث کے ایک حلقے میں شامل ہوا اور” الرفع والتکمیل ،قفو الاثر” پڑھنے کا موقع نصیب ہوا
اس کو پڑھانے والے استاذ دکتور ایمن الحجار ہیں جو کہ اصول الدین کے فن میں ماہر ہیں علم حدیث میں ایک باکمال استاذ ہیں ایک مرتبہ ملاقات کے لیے ان کی آفس پر جانا ہوا تو فرمایا :”فقہ حنفی کوسمجھنے کے لیے *علماء ہند کی کتابوں کو پڑھے بغیر چارہ نہیں*”
مگر یہاں علماء ہند میں بس چند ہی گنے چنے نام مشہور ہیں جن کی تصنیفات عربی زبان میں ہیں جیسے علامہ ظفر تھانوی صاحب،ابوالحسنات مولانا عبد الحی صاحب لکھنوی ،علی میاں ندوی صاحب وغیرہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اپنے اکابرین کی زیادہ سے زیادہ کتابیں یہاں منظر عام پر لائی جائیں اپنے یہاں عربی میں لکھنے کا مزاج ختم ہوتا جا رہا ہے جب کہ اس کے بغیر عربوں تک ہم اپنی علمی شناخت کیسے بنا سکتے ہیں. الحمدللہ امسال دارالعلوم کے کچھ طلبہ آئے ہیں جو اس کی کوشش بھی کر رہے ہیں مولانا عارف جمیل صاحب کی کتاب "المعتصر”چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہے اسی طرح رفیق درس عبدالمجید افغانی کی کتاب "قواعد فی علوم الحدیث النبوی علی منھج السادةالحنفیہ بھی طبع ہوچکی ہے .
جامعہ ازہر کا طریقہ تدریس بھی دارالعلوم دیوبند سے یکسر مختلف ہے ہم نے دارالعلوم میں دیکھا کہ یہاں جتنی بھی کتابیں داخل نصاب ہیں حرفا حرفا انہیں پڑھ کر اسے حل کیا جاتا ہے جامعہ ازہر کا انداز تدریس محاضرانہ ہے اساتذہ کو فن کی ذمہ داری دی جاتی ہے کوئی متعین کتاب نہیں ہوتی مثلا اصول فقہ کے شعبے میں ایک گھنٹہ اصول فقہ احناف ہے اب اس کے استاذ اپنی تیاری متعدد کتب سے کرکے اپنا ایک مذکرہ تیار کرتے ہیں وہی محاضرہ پیش کرتے ہیں اور پھر اسی سے امتحان بھی ہوتا ہے
ماجیستر میں کلاس صرف دو دن ہے جسے یہاں دراسات علیا کہا جاتا ہے اور اس سے نیچے کلیہ میں پانچ دن کلاس چلتی ہے.
بچپن سے اب تک اساتذہ کا جو تصور اور تصویر اور ان کی ہیئت اور ان کا لباس و پوشاک ہم نے دیکھا یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس نظر آیا اساتذہ مکمل کلین شیو سوٹ بوٹ میں سبق پڑھانے کے لیے آتے ہیں تو دل ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتاکہ یہ استاذ ہیں یہاں آنے کے بعد کلاس کی تصویر گھر بھیجی جس میں استاذ درس دے رہے تھے اہلیہ نے دیکھ کر پوچھا کہ "یہ عربی بول لیتے ہیں؟؟ ”
اسے یہاں کا کلچر کہہ لیا جائے یا جو بھی کہا جائے
البتہ یہاں کا خاص لباس جسے زي ازہری کہا جاتا ہے جو شیروانی نما ہوتا ہے وہ بہت خوبصورت ہوتا ہے اس کے ساتھ لال ٹوپی جس پر سفید پٹی نما ایک پگڑی ہوتی ہے جو اس لباس کا حسن دوبالا کردیتی ہے مگر یہ لباس تمام اساتذہ زیب تن نہیں فرماتے ۔
یہاں آنے کے بعد لگتا تھا کہ جس طرح دارالعلوم میں داخلے سے پہلے ہی طعام وقیام کی سہولت میسر ہوجائے گی مگر ایسا نہیں تھا یہاں کا دارالاقامہ کا نظام بالکل الگ ہے داخلے سے اس کا کوئی ربط نہیں ہے.
وافدین اور مصریوں کے لیے الگ الگ قیام کا نظم ہے. اسی طرح لڑکوں اور لڑکیوں کی رہائش کا بھی الگ الگ انتظام ہے. جب تک حکومت کی طرف سے موافقہ امن نہ آجائے قیام وطعام کی سہولت میسر نہیں ہوتی اور اسی کے ساتھ ساتھ اسکالرشپ(انڈین تقریبا تین ہزارروپیہ) جسے یہاں منحہ کہاجاتا ہے کا منظور ہونا بھی لازمی ہے.منحہ جاری ہونے کے بعد مکمل تعلیم فری ہے۔ وافدین کی رہائش کو یہاں مدینةالبعوث کہا جاتا ہے وہاں پہونچنے کے بعد کھانا بھی جاری ہوتا ہے دوپہر میں چاول اور گوشت کا بھنا ہوا ٹکڑا اور سبزی
کا سالن ہوتا ہے ناشتے میں دودھ کا ایک دوسو گرام کا پیکٹ، ابلا ہوا ایک انڈا، کبھی جام کی چھوٹی سے پیکٹ، اور پاو روٹی ہوتی ہے. عام طور پر شام میں کھانا خود بنانا پڑتا ہے یہاں رہنے والے انڈین طلبہ آپس میں مل جل کر شام میں کھانا پکاتے ہیں ہر بلڈنگ کی ہر منزل میں ایک روم مطبخ کے نام سے متعین ہے جس میں جگہ جگہ بورڈ لگا ہوا ہے جس میں طلبہ اپنا اپنا ہیٹر لگا کر کھانا بناتے ہیں شاید بجلی سستی یا فری ہونے کی وجہ سے یہ سہولت طلبہ کو میسر ہے. گیس بھرانے جھنجھٹ نہیں ہے، جس کا نظارہ دارالعلوم میں خوب ہوتا ہے. اور کمرے میں کھانا نہ بننے کی وجہ سے کمرہ کھانے کی خوشبو سے معطر بھی نہیں ہوتا جیسا کہ دارالعلوم میں اکثر کمرے قسم قسم کے کھانے کی خوشبوؤں میں بسے ہوتے ہیں.
عام طور سے یہاں کمروں میں تین طلبہ کا قیام ہوتا ہے جو ایک ہی ملک کے ہوتے ہیں یا پھر فردیہ کمرہ مل جاتا ہے بعوث کی طرف سے سونے کے لیے لوہے کا بنا ہوا بیڈ اسپینچ کا موٹا گدا ایک ٹیبل ایک کرسی اوڑھنے کے لیے کمبل بچھانے کے لیے چادر مہیا کی جاتی ہے اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ رہائش کے لحاظ سے بعوث کا ماحول بہت پرسکون اور محفوظ ہوتا ہے جو کہ مجھے اب تک میسر نہیں ہے.
یہاں اختصاص کا مزاج ہونے کی وجہ سے ہر فن کے ماہرین کی کھیپ ہے ہم سمجھ رہے تھے کہ منطق و فلسفہ جیسے علوم اب صرف دارالعلوم اور اس کے منہج کے مدارس کے نصاب میں بطور تبریک پڑھے پڑھائے جاتے ہیں مگر یہاں کر پتہ چلا کہ اس فن میں بھی لوگ پی ایچ ڈی کر رہے ہیں موجودہ شیخ الازھر دکتور احمد طیب نے بھی فلسفے میں ہی اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری لے رکھی ہے خلاصہ یہ ہے کہ علمی کمال میں اساتذہ مہارت تامہ رکھتے ہیں اور اپنے اختصاصی فن میں کامل دسترس کی بنا پر بعضے بعضے مکمل موسوعہ کی حیثیت اختیار کر چکے ہوتے ہیں
عربی زبان اور خدا داد ذہانت نے انہیں بلندیوں پر پہونچانے میں بڑی معاونت کی ہے
البتہ یہاں کی عامیہ زبان جو کہ عربی کی ہی ایک بگڑی شکل ہے بکثرت رائج ہے بہت سےقابل اساتذہ کا درس بھی اسی عامیہ میں ہونے کی وجہ سے وافدین طلبہ مستفید نہیں ہوپاتے رونا اس بات کا ہے لغہ عربیہ کے شعبے میں بھی عام دروس عامیہ میں ہوتے ہیں ۔
ہم دارالعلوم میں رہتے ہوئے یہ بات اکثر سنا کرتے تھے کہ سرکاری کام میں اور دارالعلوم کے کام میں وقت بہت لگتا ہے مگر جامعہ ازہر کی کارروائی کو دیکھ کر لگتا ہے دارالعلوم کے سارے کام 4جی کی اسپیڈ سے ہوتے ہیں یہاں کے موظفین کاموں کو بہت ٹالتے ہیں ذرا سے کام کے لیے کئی بار "بکرة” کا لفظ سننا پڑتا ہے کبھی کبھی مہربانی زیادہ ہوتی ہے تو "بعد اسبوع” بھی کانوں میں رس گھول دیتا ہے
اساتذہ ،کتابیں اور دیگر آلات علم کے ادب و احترام کا جو منظر دارالعلوم میں دکھائی دیتا ہے وہ یہاں نظر نہیں آتا البتہ ہاتھ چومنے اور کبھی کبھی گال سے گال سٹا کر چومنے کی آواز نکالنے کا رواج خوب ہے.
بس اسی پر بات ختم کرتا ہوں
مصر کے لوگوں، یہاں کے رہن سہن پر آئندہ پھر کبھی۔۔

Comments are closed.