کتابوں کی دنیا میں

کل ہم مصر کے ایک مشہور کتب خانہ "دارالکتب المصریہ” جائیں گے، کون کون تیار ہے؟ "ایمن” کا میسج دیکھا تو جلدی سے ریپلائی دیا "سجلونی سجلونی”، ادھر سے جواب آیا "طیب”، رات میں طے پایا کہ صبح 9 بجے نکلنا ہے.
گیارہ بجے کے قریب ہمارا پانچ افراد پر مشتمل قافلہ (مولانا ارشد خیرآبادی، حذیفہ سلمان، حسان ادروی، ایمن ظفر اور احقر) اس کتب خانے پر پہونچ گیا۔
گیٹ پر رجسٹری خانہ پری اور پاسپورٹ سپردگی کے بعد اندر پہونچے تو گائڈ نے ہمیں نوادرات کے حصے میں پہونچا دیا، ہم سے سوال ہوا کہ آپ یہاں پہلی مرتبہ آئے ہیں؟ ہم نے ہاں میں جواب دیا تو کتب خانے کی ایک موظفہ "یمنی خالد” ہمارے ساتھ چلیں، ان کی رہنمائی اور فصیح عربی زبان میں ہم نے بیش قیمت چیزوں کا مشاہدہ کیا کتابت کی ابتدا کیسے ہوئی، اور کاغذات سے پہلے لکھائی کا طریقہ کار کیا ہوتا تھا، رنگوں کو کیسے تیار کیا جاتا تھا، دوات میں روئی کیوں ڈالی جانے لگی؟ لکڑی کے قلم کے اقسام. جلد سازی میں کن چیزوں کا استعمال ہوتا ہے؟ یہ ساری چیزیں کچھ اصلی اور کچھ مصنوعی شکل ميں شیشے کی نفیس الماریوں میں سلیقے سے رکھی ہیں.
آگے بڑھے تو زمانہ قدیم میں بلا نقطے کی کتابت کے چند نمونے بھی دیکھنے کو ملے، جو شاید کپڑوں پر لکھے ہوئے تھے، کچھ اور چلے تو پرانے زمانے کی کتابوں کے نسخے بطور یاد گار سجے ہوئے تھے، ان میں ایک کتاب "ابن سینا” کی "قانون الطب” بھی تھی، نام سنا سنا سا لگا تو غور سے دیکھنے کی کوشش کی، باب البول کی عبارت *”بول الإنسان أضعف الأبوال”* پر نظر پڑی تو بے ساختہ ہنسی آگئی.
قافلہ آگے بڑھتا رہا "یمنی خالد” ہر ہر کتاب اور چیزوں کے بارے میں بتاتی جا رہی تھیں، چلتے چلتے اس گیہوں کے دانے پر ہم ٹھٹھک گئے جس پر بہت نظافت سے کچھ قرآنی آیات لکھی ہوئی تھیں، یہ کسی عجوبے سے کم نہیں تھا۔ اور انڈے کے چھلکے پر حضرت سلیمان کی مدح میں عبرانی زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا، جو حیرت میں اضافہ کر رہا تھا۔ اس کو دیکھنے کے لیے اسکرین بھی لگی تھی، جس میں اس کی تصویر کو خوب بڑا کر کے پڑھا بھی جاسکتا تھا۔ چلتے چلتے قرآن شریف کے بھی چند شاندار اور حیران کردینے والے نسخے بھی دیکھنے کو ملے۔ ایک بہت بڑا قرآن کا غلاف نظر آیا جس کا وزن 150 کلو گرام تھا، ہمیں بتایا گیا کہ یہ ہندستان سے آیا ہے، اس میں رکھا ہوا قرآن فی الحال موجود نہیں تھا، شاید کچھ اصلاح وترمیم کی ضرورت آن پڑی تھی. شیخ سعدی کی مشہور کتاب "بوستاں” بھی اس کتب خانے میں بہت ہی دیدہ زیب کتابت میں لکھی ہوئی موجود ہے، جو صفحہ نظر آرہا ہے اس میں حضرت یوسف علیہ السلام وزلیخا کا قصہ مذکور ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اس واقعے کی منظر کشی کے لیے صفحے پر ایک تصویر بھی ہے، جس میں ان سارے دروازوں کو بند کیا تھا.
یہاں سے نکل کر ہم کتب خانے کے اس حصے پر جانے کا ارادہ رکھتے تھے جو ہمارا مقصود اصلی تھا، یعنی مخطوطات اور اس کے پڑھنے کا انتظام۔
یہاں کا حسن انتظام قابل تعریف بھی ہے اور قابل تقلید بھی، جا بجا کمپیوٹر ہےجس پر آپ اپنی مطلوبہ کتاب سرچ کرکے اس کا نمبر وہاں موجود موظف کو بتائیں، وہ آپ کو ایک پرچی لکھ کر دے گا، یہ پرچی لے کر آپ دوسرے حصے میں آئیں، یہاں ایک اسکرین نما مشین ہے، یہاں کا موظف ایک ریل لائے گا، جیسے پہلے ٹیپ ریکارڈ میں کیسٹ کی ریل ہوتی تھی، یہاں اس کو "میکرو فلم” بولا جاتا ہے۔ وہ ریل اس مشین میں ڈال کر چلائی جاتی ہے، جو پروجکیٹر نما لائٹ کے ذریعے کتاب کو بہت صاف دکھا دیتی ہے۔ محققین کے لیے یہ سسٹم کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔
1286ھجری میں بنا یہ کتب خانہ فن تعمیر کا عظیم شاہکار ہے، جس میں قدیم وجدید تزئین کاری کا خوشنما سنگم ہے پر سکون ماحول فراہم ہے.
یہاں سے نکل کر مطالعہ گاہ پر سرسری نظر ڈالتے ہوئے ہم باہر کی طرف چل پڑے۔
تصویر پر مکمل پابندی کی بنا پر ہم اندر کے مناظر دکھانے سے عاجز ہیں۔
Comments are closed.