روداد قلم……………………… ۲ ” یوم خواتین اور مہوشان مملکت خداداد "

ساجد حسین سہرساوی

"میرا جسم میری مرضی ، کھانا خود گرم کر لو ، طلاق یافتہ لیکن خوش ، میں آوارہ میں بدچلن ، یہ چہار دیواری یہ چادر گلی سڑی لاش کو مبارک ، اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پر باندھ لو ، نظر تیری گندی اور پردہ میں کروں ، لمبا نہیں موٹا چاہیے ، اب آگے نہیں پیچھے ڈالو ” یہ اور اس قسم کے متعدد فحش نعرے اور حیا سوز پمفلٹ پچھلے دو تین برسوں سے دو قومی نظریے میں مگن اسلامی جمہوریہ کی ملکائیں مملکت خداداد کی سڑکوں پر یوم خواتین کے مواقع سے باذن و رضا و رغبت حکومت وقت لگاتیں اور تقسیم کرتی آرہی ہیں.

” دو قومی نظریہ ” کیا ہے ؟ یہ ایک مذہبی کارڈ تھا جس کے سبب متحدہ ہندوستان منقسم ہوا اور مذہب کے نام پر سیاسی روٹیاں سینکنے کا رواج انتہا کو پہنچا.
"اسلامی جمہوریہ ” کیا ہے ؟ پروفیسر حفیظ الرحمن صاحب لکھتے ہیں : حصول پاکستان کی جدوجہد کے دنوں قائد اعظم اور تمام زعماء نے بتکرار کہا کہ پاکستان کی اصل بنیاد اسلام ہوگا۔ عام مسلمانوں نے بھی یہی نعرہ لگایا "پاکستان کا مطلب کیاٗ لاالہ الاللہ ” قیام پاکستان کے چند سال بعد دستور ساز اسمبلی میں 22 نکات پر مشتمل قرار داد منظور ہوئی جس میں یہ واضح کیا گیا کہ پاکستان میں اسلامی اقدار و روایات اور تعلیمات رائج ہونگی یہ قرار داد پاکستان آئین کا حصہ ہے آئین پاکستان میں یہ شق مرقوم ہے کہ "پاکستان میں کوئی قانون اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں بنے گا”.
"مملکت خداداد” ایسا ملک جو خدا کا بخشا ہوا ہو یعنی عطیہ الٰہی باشندگان پاک کا یہ خیال بلکہ اعتقاد ہے کہ یہ ملک بخشش خداوند ہے.
مسمات ثلاثہ سے میں کتنی سچائی اور خلوص کی آمیزش تھی اس کا اندازہ و مشاہدہ پچھلے سات دہائیوں سے زیادہ پر محیط ہے اسلامی اساس کے نام لیواؤں کے ساتھ برتاؤ بھی ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں بلکہ اب تو وہاں سیاست پر مذہبی رنگ مثل دھبہ شمار کیا جانے لگا ہے اور مذہبی لوگ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھے جانے لگے ہیں ایک کثیر تعداد کے نزدیک اسلام کو پاک سے حرف مکرر کی طرح پاک کر دینا چاہیے اور حکومتی اور عدالتی نقطۂ نظر کی مانیں تو اسلام مخالف نعرے بازیاں غیر قانونی بھی نہیں.
آج یعنی ” یوم خواتین ” کے موقع سے لگائے گئے نعرے اور پمفلٹ و بینر ہی ملاحظہ کر لیجیے کہ کس قدر سڑکوں اور سوشل نیٹ ورکوں پر تعلیمات اسلامیہ کی کھلی اڑائی گئی ہے احکام الٰہی پر جملے کسے گئے ہیں اور قطعی الثبوت فرائض کا مذاق اڑایا گیا ہے یہ کوئی اور نہیں بلکہ محمد علی جناح کی روحانی ملکائیں ہیں ان کے خوابوں کا پاکستان ہے جہاں اسلام ایک نعمت نہیں بلکہ بوجھ ہے مذہبی نظریے بے بنیاد ہیں عدالت و حکومت مغرب کے زرخرید غلام ہیں اور ہر قسم کے مذہبی مخالفین لائق تحسین و تعظیم ہیں اس عورت آزادی نامی مارچ کی اجازت پاسداران قرار داد پاکستان نے چند شرائط کے ساتھ دی ہے حکومت کی جانب سے تحفظ فراہم کیا گیا ہے مقابل پارٹیوں کی حمایت حاصل رہی ہے عوام جو پاکستان کا مطلب ” لا اله الا الله ” سمجھتے آرہے تھے ان کی سمجھ کا جنازہ نکالا گیا ہے اور جو لوگ اسے عطیہ الٰہی سمجھتے تھے منھ چھپائے گوشہ نشینی پر مجبور ہو چکے ہیں.
مارچ میں شامل عورتوں کے بقول ہم اپنے حقوق اور آزادی کے لیے کوشاں ہیں ہم معاشرے میں مساوات چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ اگر اس دعوے میں کچھ سچائی ہے تو ہم بس اتنا کہیں گے میڈم آپ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں ہیں اس لیے ضروری تھا کہ پہلے حصول تعلیمات اسلامیہ میں کوشاں ہوتیں پھر اگر اس راہ پر کوشاں ہوتیں تو ضرور سوالات کرتا کہ اسلام نے اس طرح بحالت نیم عریاں سڑکوں کی خاک چھاننے کی اجازت دی ہے ؟ کیا اسلام میں مساوات کا تصور ہے ؟ آپ کے اعذار قبول کرتے ہیں کہ گھرانہ مسلمان تھا لیکن اسلامی نہیں ؛ پرورش اور کلچر و تعلیمات پر مغربیت کی چھاپ لگی تھی تو اجازت دیجیے کہ آپ سے پوچھوں آپ نے ایسے غلیظ نعرے اور پلید پمفلٹ مغرب کے کس قحبہ خانے سے کاپی کی ہے ؟ یورپ کے کس مشنری سے اخذ کیا ہے ؟ میں نہیں مانتا کہ کھلے عام ایسی بداخلاقی اور فحش زبانی کی اجازت یورپین سڑکیں دی ہونگی.
آپ سے کوئی ذاتی عناد یا مفاد وابستہ نہیں لیکن اسلامی نام رکھنے کے سبب ہمدردیاں ضرور ہیں. بالیقین آپ کا جسم ہے تو آپ ہی کی مرضی چلے گی لیکن خالق جسم کے بھی کچھ حقوق ہیں اس کا خیال رکھنا لازم ہے جسم کے تعلق سے "حدود” متعین ہیں اسلام نے انفرادیت کے مقابلے میں اجتماعیت پر زور دیا ہے اور انفرادی مسائل کے حل کے واسطے عدالت اور محکمہ شرعیہ متعارف کروایا ہے اگر آپ اس کشمکش آزادی میں رتی بھر بھی مخلص ہیں تو پہلے ان عدالتوں سے رجوع کریں ؛ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں بلا تفریق مرد و زن ہر فرد بشر طلاق کو معیوب گردانتا ہے طلاق دینے والوں پر لسان طعن دراز کرتا اور طلاق یافتہ کے متعلق فکرمند رہتا ہے. ” میں آوارہ میں بدچلن” اس قسم کے جملے تو چکلہ پر بیٹھی طوائف بھی زبان پر لانے سے قبل ہزار بار سوچتی ہیں.
درحقیقت حدود تو قرآن و احادیث اور احکام شرعیہ ماننے والون کیلیے ہیں نہ ماننے والے تو بہت کچھ کر سکتے ہیں اور اس کے لیے عقل و فہم کے ثابت رہنے کے ساتھ ساتھ وفور حلم و حیا بھی لازم ہے.
ہم سب کے پیارے آقا محبوب کبریا ﷺ نے فرمایا تھا : "إنَّ مِمَّا أَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِ النُّبُوَّةِ الْأُولَى: إذَا لَمْ تَسْتَحِ فَاصْنَعْ مَا شِئْت”. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ. وعن سعيد بن زيد – رضي الله عنه -: أن رجلاً قال: يا رسول الله، أوصني، قال: ” أوصيك أن تستحيَ من الله؛ كما تستحي رجلاً من صالحي قومك ".
و قال اصحاب رسول اللہ : "يا معشر المسلمين استحيوا من الله. فوالذي نفسي بيده إني لأظل حين أذهب إلى الغائط في الفضاء مغطي رأسي؛ استحياء من ربي”. ( أبو بكر الصديق ).
"من استحيا اختفى ومن اختفى اتقى ومن اتقى وقي”.
"من قَلَّ حياؤه، قلَّ وَرَعُه، ومن قلَّ وَرَعُه، مَات قلبه”. ( عمر بن الخطاب ).
” إنما الفخر لعقل ثابت … وحياء وعفاف وأدب”.
"قُرِنَت الهيبة بالخيبة ، والحياء بالحرمان”. ( علي بن أبي طالب ).
"الحياء والايمان مقرونان جميعا ؛ فاذا رفع أحدهما ارتفع الآخر”. ( عبدالله بن عمر ).

مگر ظالم نہیں سمجھے گا مؤمن کے اشارے کو…!
"وَمَن یَتَعَدَّ حُدُود َاللہ ” سے رب کے اشارے کو….!

و بالله التوفيق

Comments are closed.